پھر حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ آئے ؛اور انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !اللہ نے آپ کو بری کردیا آپ تو مجھے کفار کی طرف واپس کر چکے تھے؛ لیکن اللہ نے مجھے ان کافروں سے نجات دی ۔‘‘
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ لڑائی کی آگ ہے اگر کوئی مقتول کا مددگار ہوتا ‘تو یہ آگ بھڑک اٹھتی۔‘‘ جب یہ بات ابوبصیر نے سنی تو سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں کفار کی طرف واپس کردیں گے لہٰذا ۔وہ چلے گئے یہاں تک کہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔
اور اس طرف سے ابوجندل سہیل رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ کر آرہے تھے؛ راستہ میں وہ بھی ابوبصیر سے مل گئے یہاں تک کہ جو قریشی مسلمان ہو کر آتا ابوبصیر سے مل جاتا۔ آخرکار ان سب کی ایک ٹولی ہوگئی۔ اللہ کی قسم! جب وہ کسی قافلہ کی خبر سنتے تھے کہ وہ شام کی طرف سے آرہا ہے تو وہ اس کی گھات میں لگ جاتے؛ اور ان کے آدمیوں کو قتل کردیتے اور ان کا مال لوٹ لیتے ۔
آخرکار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو بھیجا اور آپ کو اللہ کا اور اپنی قرابت کا واسطہ دیا کہ آپ ابوبصیر کو ان باتوں سے منع کریں آئندہ سے جو شخص آپ کے پاس مسلمان ہو کر آئے وہ بے خوف ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو منع کرا بھیجا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ....إلی قولہ تعالیٰ ....الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ﴾ [الفتح ۲۴۔۲۶]
’’ وہی ہے جس نے کافروں کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے....ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی۔‘‘ تک نازل فرما کر ان کے تعصب کے اس حال کو ظاہر کیا ۔
ان کی جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا مضمون قائم رکھا اور نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو قائم رکھا بلکہ مسلمانوں اور کعبہ کے درمیان حائل ہوگئے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن محمد المسندی سے وہ عبدالرزاق سے وہ أحمد سے وہ عبدالرزاق سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ امام بخاری کے اساتذہ میں سے جلیل القدر شیخ ہیں ۔ان کی روایت میں جو الفاظ زیادہ ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں ثابت ہیں ۔
صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صلح نامہ لکھا اور لکھا:’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘
مشرکوں نے اعتراض کیا اور کہا:’’ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہ لکھو؛ اگر تم اللہ کے رسول ہوتے تو ہم تم سے جنگ نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اس کو مٹا دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ میں تو اس کو نہیں مٹاؤں گا۔
|