ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ یہ بات چاہتے ہیں ، تو اچھا ذرا آپ باہر تشریف لیجائیے۔ اور ان میں سے کسی کے ساتھ کلام نہ کیجئے ۔یہاں تک کہ آپ اپنے قربانی کے جانورں کی قربانی کردیجئے اور سر مونڈنے والے کو بلائیے تاکہ وہ آپ کے سر کے بال صاف کر دے۔
چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اور ان میں سے کسی سے کچھ گفتگو نہیں کی، یہاں تک کہ آپ نے سب کچھ پورا کرلیا، یعنی قربانی کے جانور قربان کردیئے اور اپنا سر بھی مونڈوالیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ دیکھا تو اٹھے اور انہوں نے قربانیاں کیں ۔ایک نے دوسرے کا سر مونڈ دیا۔ اژدہام کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ ایک دوسرے کو مار ڈالے، (اس کے بعد)آپ کے پاس کچھ مسلمان عورتیں آئیں تو اللہ نے آیت نازل فرمائی :
﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّ فَاِِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِِلَی الْکُفَّارِ ........وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾ [الممتحنۃ ۱۰]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو، اللہ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے ۔پھر اگر تم جان لو کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو، ........اور کافر عورتوں کی عصمتیں روک کر نہ رکھو۔‘‘ تک نازل فرمائی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن دو مشرک عورتوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں طلاق دیدی۔ ان میں سے ایک کے ساتھ تو معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ لوٹ کر آئے تو ابوبصیر رضی اللہ عنہ جو قریشی نسل تھے؛آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے؛وہ مسلمان تھے۔ کفار نے ان کے تعاقب میں دو آدمی بھیجے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوا بھیجا کہ ہم سے جو معاہدہ آپ نے کیا ہے اس کا خیال کریں ۔ چنانچہ آپ نے ابوبصیر کو ان دونوں کے حوالہ کردیا۔
وہ دونوں ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو لے کر چلے جب ذوالحلیفہ میں پہنچے؛ تو وہ لوگ اترکے اپنے چھوارے کھانے لگے ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک شخص سے کہا :’’ اے فلاں اللہ کی قسم تیری تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اس شخص نے نیام سے اپنی تلوار نکالی؛ اور کہا : ہاں اللہ کی قسم !یہ تلوار بہت عمدہ ہے میں نے اس کو کئی مرتبہ آزمایا ہے۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے دکھلاؤ۔ میں بھی اسے دیکھوں ۔
چنانچہ وہ تلوار اس نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو دیدی؛ ابوبصیر نے اسی سے اس کو مار ڈالا اور اس کو ٹھنڈا کردیا۔ لیکن دوسرا شخص بھاگ گیا اور مدینہ آکر ڈرتا ہوا مسجد میں گھس گیا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا: ’’ یہ کچھ خوف زدہ ہے۔‘‘ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو اس نے کہا :’’ اللہ کی قسم !میرا ساتھی قتل کردیا گیا؛ اور قریب تھا کہ میں بھی قتل کردیا جاتا۔‘‘
|