سہارا لیتے ہیں اور صریح نصوص کو ترک کردیتے ہیں ۔ پھر اپنے اس جھوٹے گمان کی بنیاد پر امت کے بہترین لوگوں میں قدح کرنا ؛ اور ’’انفس ‘‘ کے لفظ سے مساوات مراد لینا یہ لغت عرب کے بھی خلاف ہے۔
دوسری بات:....جس سے معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے کہ ’’نساء نا ‘‘ یعنی ’’ہماری عورتیں ‘‘ کا لفظ صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ اس میں دوسری بیٹیاں بھی اسی منزلت پر ہیں ۔ لیکن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں ؛ جب کہ ام کلثوم ؛ زینب اور رقیہ رضی اللہ عنہن پہلے ہی فوت ہوچکی تھیں ۔ہم کہتے ہیں کہ اگر نبی کریم کی دوسری بیٹیاں بقید حیات ہوتیں تو آپ ان کو مباہلہ میں ضرور شریک کرتے۔
ایسے ہی ’’انفسنا‘‘ کا لفظ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کیساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ یہ جمع کا صیغہ ہے ؛جیسا کہ ’’نساء نا‘‘ میں جمع کا صیغہ ہے ۔ ایسے ہی ’’ ابناء نا ‘‘ بھی جمع کا صیغہ ہے۔ جب کہ آپ نے صرف حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا تھا؛ اس لیے کہ ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت کوئی ایسا نہیں تھا جسے آپ کا بیٹا کہا جاسکتا ہو۔ اگرآپ کا بیٹا ابراہیم اس وقت موجود بھی تھا تووہ اتنا چھوٹا بچہ تھا کہ اسے بلایا نہیں جاسکتا تھا؛ [اگروہ جانا پہچانا ہوتا تو آپ اسے بھی مجلس مباہلہ میں ضرور لاتے]۔ابراہیم ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوا تھا؛ جو مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپ کو ہدیہ میں بھیجی تھی۔اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خچر ؛ حضرت ماریہ ؛ اورحضرت سیرین ہدیہ بھیجے تھے ۔ سیرین آپ نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو دے دی۔ جب ماریہ اپنے لیے رکھ لی۔ان سے ابراہیم پیدا ہوا؛ جو کہ تقریباً ایک سال کی عمر پاکر وفات پاگیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ اس کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی مقرر کی گئی ہے جو اس کی مدت رضاعت پوری کرے گی۔‘‘
مقوقس کی طرف سے یہ ہدیئے صلح حدیبیہ ؛ بلکہ غزوہ حنین کے بعد آئے تھے۔٭
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ﴾ (البقرۃ:۳۷)
’’آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات حاصل کیے اور ان کے ذریعہ توبہ کی ۔‘‘
فقیہ ابن المغازلی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دریافت کیا گیا کہ ان ’’کَلِمَاتٍ‘‘ سے کیا مراد ہے جو حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سیکھے تھے اور ان پر توبہ قبول کی تھی ؟ تو آپ نے فرمایا :حضرت آدم علیہ السلام نے بحق محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم اپنے گناہ کی بخشش چاہی تھی؛چنانچہ اﷲتعالیٰ
[1]
|