Maktaba Wahhabi

454 - 764
نہیں ۔ بھلا ایک آدمی کا قتل جن و انس کی عبادت سے افضل کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انسانوں کی عبادت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام کی عبادت بھی داخل ہے۔اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو پھر [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے والے کفار]ایسے کفار بھی قتل ہوئے جن کا قتل ہونا عمرو بن عبدود کے قتل سے بڑھ کر تھا؛اس لیے کہ اس عمرو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کو اتنی تکلیف نہیں پہنچی جتنی دوسرے قریشی سرداروں سے پہنچی تھی ؛ یعنی وہ صنادید قریش جو کہ بدر کے موقع پرقتل ہوئے تھے ؛ مثلاً ابوجہل ؛ عقبہ بن ابی معیط ؛ شیبہ بن ربیعہ ؛ نضر ابن حارث؛ اور دیگران کے امثال جن کے بارے میں قرآن بھی نازل ہوا ۔جب کہ اس عمرو کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔اور نہ ہی اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان سے کوئی انفرادی دشمنی معروف تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ کسی [بھی صحیح ]روایت میں مذکور نہیں کہ عمر وبن عبد ود نے غزوہ بدر یا احد میں حصہ لیا ہو۔اورنہ ہی ان کے علاوہ دیگر مغازی وسرایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئے تھے ؛ ان میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اس کا قصہ صرف غزوہ خندق میں مشہور ہوا ہے۔حالانکہ یہ قصہ صحاح ستہ اور اس طرح کی دوسری کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ جیساکہ بدر کے موقعہ پر تین افراد کی مبارزت طلبی کاذکر روایت کیا گیاہے کہ حضرت حمزہ ‘ عبیدہ اور علی رضی اللہ عنہم عتبہ ‘ شیبہ اور ولید کے مقابلہ میں نکلے تھے۔ احادیث و تفسیر کی کتابیں ان مشرکین کے تذکرہ سے بھری پڑی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے ‘ مثلاً ابو جہل ‘ عقبہ بن ابی معیط ؛ نضر بن الحارث ؛ وغیرہ اورسرداران کفارجیسے : ولیدبن مغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی بھی گروہ میں عمرو بن عبد ود کا تذکرہ تک نہیں کیا۔اورنہ ہی یہ جنگ میں پیش پیش رہنے والوں میں سے تھا۔ توپھر اس کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے کیسے افضل ہوسکتا ہے ؟ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ خبر تواتر کیساتھ منقول ہے کہ اس کے قتل سے مشرکین شکست کھا کر نہیں بھاگے تھے ؛ بلکہ وہ اپنی جگہ پر محاصرہ کیے رہے جیسا کہ اس سے پہلے تھے۔ فصل:....غزوہ بنی نضیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’غزوہ بنی نضیر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس یہودی کو قتل کردیا تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانتوں پر پتھر مارا تھا۔اس کے بعد انھوں نے مزید دس یہودیوں کو قتل کردیا، باقی یہودی بھاگ نکلے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ اس غزوہ یا دیگر غزوات کے بارے میں جوکوئی بات نقل کی جاتی ہو تو سب سے پہلے اس کے لیے سند کا ہونا ضروری ہوتاہے۔ وگرنہ انسان اگریہ چاہے کہ مولی کی ایک جڑ پر بغیر کسی سند کے دلیل پیش کرے تواس کی بات نہیں مانی جائے گی۔توپھر اصولی مسائل میں ان سے استدلال کیسے ممکن ہوسکتاہے؟ دوسری بات : ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ:یہ قصہ بالکل واضح جھوٹ ہے۔ سورۂ حشر بالاتفاق بنی نضیر کے بارے
Flag Counter