Maktaba Wahhabi

453 - 764
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’جب علی رضی اللہ عنہ نے عمر و کو قتل کردیا تو باقی مشرکین اور یہود بھاگ نکلے۔‘‘ یہ صاف ٹھنڈا جھوٹ ہے؛ کفار بھاگے نہیں تھے، بلکہ انھوں نے یہود کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نُعیم بن مسعود غطفانی رضی اللہ عنہ نے ان میں پھوٹ ڈال دی۔اور اﷲتعالیٰ نے آندھی اور فرشتے بھیج کر کفار کو منتشر کردیا اور وہ واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآئَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًاo وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًاo (....إلی ....) وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا وَ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا﴾ (الأحزاب:۲۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔ جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آ گئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔ اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔ اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔(....آگے تک ....) اور اﷲتعالیٰ نے کفار کو غصہ کی حالت میں لوٹا دیا اور وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ اور اللہ مومنوں کو لڑائی سے کافی ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے۔‘‘ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مشرکین کو لڑائی کے ذریعہ واپس نہیں لوٹایا تھا [اور نہ مسلمانوں نے انھیں شکست دی تھی]۔یہ بات اہل علم محدثین و مفسرین ؛ مؤرخین اورسیرت نگاروں کے ہاں تواتر کے ساتھ معروف و معلوم ہے۔ تو پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عبد ود کی لڑائی اور عمرو کے قتل ہوجانے سے مشرکین شکست کھا گئے۔ شیعہ نے جو روایت بیان کی ہے کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’علی رضی اللہ عنہ کا عمر وبن عبد ود کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ وہ یقیناً جھوٹی ہے۔[ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایسی مبالغہ آمیزی سے پاک ہے]۔یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام میں سے کسی ایک نے بھی یہ روایت اپنی ان قابل اعتماد کتابوں میں نقل نہیں کی جن سے احادیث روایت کی جاتی ہیں ۔اور نہ ہی اس کی کوئی صحیح سند معروف ہے اورنہ ہی ضعیف۔اس جھوٹ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جائز
Flag Counter