Maktaba Wahhabi

652 - 764
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ صلح کی تو ظاہری طورپر اس میں مسلمانوں کی ہزیمت اور پسپائی تھی ۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری میں اور اس کے وعدہ پر یقین کرتے ہوئے ایسا ہی کیا؛ آپ کویقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائیں گے۔حالانکہ باقی اکثر لوگوں کو اس بات پر غصہ آرہا تھا ‘اوران پر یہ بات بہت گراں گزررہی تھی۔ حتی کہ حضرت عمر‘ حضرت علی ‘ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم [اس بات کو برداشت نہیں کررہے تھے]۔یہی وجہ تھی کہ جب حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقی لوگوں پر آپ کی فضیلت کا اظہار کرنے کے لیے تکبیر کہی۔ پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لفظ رسول اللہ مٹادو۔‘‘تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وہ تحریر لے کر اس سے یہ جملہ مٹا دیا ۔ صحیح بخاری میں ہے :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لفظ رسول اللہ مٹادو۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا بخدا میں تو اسے کبھی نہیں مٹاسکتا، تو رسول اللہ نے وہ صلح نامہ لے لیا، حالانکہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے پھر بھی آپ نے یہ لکھا، یہ محمد بن عبداللہ کا صلح نامہ ہے۔‘‘[1] حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر سے لوٹا دینے کی طاقت ہوتی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دیتا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کررہے ہیں ۔آپ پوچھ رہے تھے: کیا ہم حق پر اور وہ ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ اور کیا ہمارے مقتولین جنت میں اوران کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ پھر ہم ذلت کو کیوں گوارہ کررہے ہیں ؟پھر آپ نے اپنی اس بات سے رجوع کرلیا ؛ اور اس غلطی کے کفارہ میں بہت سارے نیک اعمال کیے۔ [حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت گزاری]: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے اطاعت گزار تھے۔ آپ سے کبھی بھی مخالفت نبوت میں کوئی حرکت سر زد نہیں ہوئی۔بلکہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کرنے کے بعد آپ سے مناظرہ کیا تو آپ نے وہی جواب دیا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا۔ حالانکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جواب نہیں سنا تھا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت اور مطابقت پر سب سے واضح دلالت ہے۔اور یہ کہ آپ کا قول و عمل ؛ علم اورحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔اس لیے کہ آپ وہی بات فرمایا کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی۔اور وہی کام کیا کرتے تھے جو آپ کا کام ہوتا۔ خصوصاً ان مواقع پر جب دوسرے لوگوں پر آپ کی فضیلت ظاہر ہوئی۔تو کہاں
Flag Counter