Maktaba Wahhabi

651 - 764
اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! ہم تو صرف اللہ کے گھر کا ارادہ کرکے حاضر ہوئے ہیں کسی سے لڑنا اور مارنا یا اسے لوٹنا ہماری غرض نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلیں اگر کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بنے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’پھر اٹھو اور اللہ کا نام لے کر چلو۔‘‘ اور ایسے ہی جب عروہ بن مسعود ثقفی جو کہ قبیلہ بنو ثقیف کا سردار تھا ؛جو کہ قریش کا حلیف قبیلہ تھا؛ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت کی اور کہا: یہ مختلف گروہوں سے ملے ہوئے لوگ ہیں ‘ اور امام احمد کی روایت کے متعلق اوباش قسم کے لوگ ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو بھاگ جائیں گے اور آپ کو اکیلا چھوڑ دیں گے - ۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)نے یہ سن کر عروہ سے کہا کہ:’’ امصص ببظر اللات‘‘ (تو لات بتنی کی شرمگاہ چوسے)! [1] کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت سے بھاگ جائیں گے، اور انہیں تنہا چھوڑ دیں گے؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عروہ نے کہا: قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھ پر تمہارا ایک احسان نہ ہوتا جس کا میں نے ابھی تک بدلہ نہیں دیا تو میں ضرور تم کو جواب دیتا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سے پہلے جناب عروہ بن مسعود کے ساتھ کوئی احسان کیا تھا۔ تو اس نے اس احسان کی حرمت کا احساس کرتے ہوئے اس بات پر کوئی جواب نہ دیا۔ اسی لیے علماء کرام رحمہم اللہ میں سے بعض نے کہاہے کہ : ’’ یہ حدیث مصلحت اور ضرورت کے پیش نظر شرمگاہ کا صراحت کے ساتھ نام لینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا شمار ممنوعہ فحاشی کے امور میں نہیں ہوتا۔ اور جیساکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس انسان کو سنو کہ وہ جاہلیت کی طرح کی گریہ و زاری کررہا ہے تو اسے برا بھلا کہو‘ اور اس کی رعایت نہ کرو۔‘‘ [رواہ احمد ] حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو ایسے ہی آہ و بکاکرتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا: ’’اے فلاں ! تمہارے باپ کی ایسی تیسی ....۔‘‘ جب آپ سے کہا گیا کہ : آپ نے یہ کیا کہہ دیا ؟توآپ نے جواب دیا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘[2]
Flag Counter