Maktaba Wahhabi

213 - 764
ساتھ ختم ہوجاتا۔پھر کسی کو یہ حکم نہ دیا جاتا کہ وہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرے ۔ ٭ آٹھویں بات : شیعہ کا یہ کہنا کہ : سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی ۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ بلکہ اکثر علماء اس کے خلاف کہتے ہیں ۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے نماز ادا کی تھی۔ ٭ نویں بات : اگرچہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم ہے ؛ لیکن اس میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس نے آپ کے ساتھ مل کر رکوع کیا وہ امام بن جائے گا ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امام نہیں بن گئے تھے ‘ بلکہ آپ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سینتیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منصب امامت پر فائز ہونے کی سینتیسویں دلیل یہ آیت ہے: ﴿ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ﴾ (طٰہ:۲۹) ’’اور میر گھر والوں میں سے میرا وزیر بنادے۔‘‘ ابو نعیم حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں میرا اور علی کا ہاتھ پکڑا اور چار رکعت نماز ادا کی۔پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی:’’ اے اﷲ ! حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے بھی تجھ سے دعا کی تھی اور میں تیرا نبی محمد بھی تجھ سے دعا کرتا ہوں :’’اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیربنا دے۔ میرے کنبہ میں سے علی رضی اللہ عنہ کو میرا وزیر مقرر کردے اس کے ساتھ میری کمر کو مضبوط کر دے اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے ایک پکارنے والے کو سنا وہ پکارتا تھا۔‘‘ اے احمد! آپ کی دعا قبول ہوئی۔‘‘یہ روایت اپنے باب میں نص صریح ہے ۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:پہلی بات:ہم اس حدیث کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا۔ ٭ دوسری بات:ہم کہتے ہیں : محدثین کے نزدیک بالاتفاق اس حدیث کا موضوع ہونا ایک کھلی ہوئی بات ہے۔بلکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بد ترین جھوٹ ہے۔ ٭ تیسری بات: یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے؛ توپہلے کا ایک عرصہ تو ابن عباس پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ابن عباس کی پیدائش اس وقت ہوئی جب بنو ہاشم شعب ابی طالب میں محصور تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہجرت سے قبل مکہ میں ایک شیر خوار بچہ سے زیادہ نہ تھے۔ابھی آپ اس قابل نہیں تھے کہ وضوء کرتے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے۔[ پھر وہ اس واقعہ میں کیوں کر شریک ہو سکتے ہیں ؟]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوا تو ابن عباس ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ ہجرت کے وقت آپ کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ سال سے بھی کم تھی۔ایسے بچے کو نہ ہی وضوء کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور نہ ہی نماز پڑھنے کا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter