Maktaba Wahhabi

214 - 764
نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کاحکم دو۔اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے سزا دو۔ اور ان کے بستر علیحدہ علیحدہ کردو۔‘‘ [سنن أبي داؤد ۱؍۱۹۳] جوبچہ اس عمر کا ہو؛ وہ نماز کی سمجھ نہیں رکھتا؛ اورنہ ہی تلقین کے بغیر اس طرح کی دعا حفظ کرسکتا ہے۔صرف ایک بار سن لینے کی وجہ سے ایسی چیزیں حفظ نہیں ہوجاتی۔ ٭ چوتھی بات : انہوں نے اس سے پہلے اس آیت: ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ﴾ [المائدۃ ۵۵] ’’(مسلمانوں )تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے۔‘‘کی تفسیر میں نماز میں انگوٹھی صدقہ کرنے کا واقعہ پیش کیا تھا؛ اس روایت میں بھی یہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی۔اور یہاں پر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مکہ میں اس واقعہ سے کئی سال پہلے کی تھی۔ اس لیے کہ پہلی دعا سورت مائدہ کی تفسیر میں ہے۔ جو کہ مدینہ میں نازل ہونے والی آخری سورت ہے ۔جب کہ پھلا واقعہ مکہ مکرمہ کا ہے۔ جب آپ نے یہ دعا مکہ میں کی تھی اور اسے شرف قبولیت بھی مل گیا تھا تو پھر اتنے سالوں بعد دوبارہ مدینہ طیبہ میں یہی دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔[1] ٭ پانچویں بات: قبل ازیں ہم اس دعوی کے بطلان پر دلائل دے چکے ہیں ۔ بلا شبہ یہ کلام کئی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا جھوٹ باندھا گیا ہے۔لیکن یہاں پر انہوں نے کچھ چیزیں ایسی زیادہ کی ہیں جو پھلے گزری ہوئی دعا میں نہیں تھیں ۔یہاں پر انہوں نے دعا میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں :’’ اسے میرے کام میں شریک کردے۔‘‘یہ صراحت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اس کام میں شریک تھے۔ جیسے ہارون حضرت موسیٰ کیساتھ شریک تھے، یہ ان لوگوں کا قول ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی مانتے ہیں ۔یہ صریح کفر ہے ؛ یہ امامیہ کا قول نہیں ؛بلکہ غالیہ کا قول ہے۔ کسی معاملہ میں شریک وہ نہیں ہوتا جو کہ بعدمیں خلیفہ بنے۔اس لیے کہ شیعہ آپ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت کے دعویدار ہیں ۔جب کہ اس کا مطلب آپ کے ساتھ زندگی میں آپ کے امور میں شراکت ہے۔امامیہ اگرچہ نبوت میں آپ کے ساتھ کسی کی شراکت کا کہنے والوں کو کافر کہتے ہیں ؛لیکن اس کے باوجود اہل سنت والجماعت کی مخالفت ؛ اولیاء اللہ سے بغض و عداوت اور ان کے بارے میں کافر اور مرتد ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ؛ انہی لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں جو کفر و گمراہی کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔اور انہوں نے اصل دین کو پس پشت ڈال دیا ہے۔یہ ان ہی گمراہوں اور کفار کے مقال و رجال میں اضافہ کرتے ہیں ۔ گویا وہ اس مثل کے مصداق ہیں : ’’ رَمَتْنِیْ بِدَائِہَا وَانْسَلَّتْ ۔‘‘’’وہ اپنی بیماری مجھ پر پھینک کر کھسک گئی۔‘‘
Flag Counter