ہیں ۔ایسے دلائل کو وہی شخص تسلیم کرسکے گا جو ظالم اور جاہل ہو یا پھرجو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر چکا ہو یا صاحب بدعت و عصبیت ہو؛ اور جو چیز بھی اس کی خواہشات کے موافق ہو اسے قبول کرتا ہو خواہ وہ حق ہو یا باطل ۔ اسی لیے یہ مقولہ زبان زد خاص و عام ہے کہ شیعہ عقل و نقل اور دین و مذہب سے بے گانہ اور حکومت و سلطنت سے عاری ہیں ۔
اسی لیے علمائے کرام رحمہم اللہ کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : اگر جہالت کے حکم کو لوگوں کے ساتھ معلق کردیا جائے تو یہ رافضہ کو مکمل طور پر اپنے اندر گھیر لے گا۔ مثلاً اگر کوئی یہ قسم اٹھائے کہ میں لوگوں میں سب سے جاہل انسان سے بغض و نفرت رکھتا ہوں ؛ یا اس طرح کی دیگر کوئی قسم اٹھائے؛[تو یہ قسم رافضیوں پر صادق آئے گی]۔ اور ایسے ہی اگر سب سے جاہل حق کے میں کچھ وصیت کردے ؛ تو پھر را فضیوں کے حق میں ٹھیک نہ ہوگی۔ اس لیے کہ وصیت کو پورا کرنا اطاعت اور قربت الٰہی کا کام ہے۔اوراس کے برعکس اگر ایسی قوم کے متعلق وصیت کرے جس میں کافر اور جاہل سبھی موجود ہوں تو جائز ہے۔ بخلاف اس کے کہ اگر وہ کفر اور جہالت دونوں کی شرط لگائے۔
پھر رافضیوں کی علمی تہی دامنی کا یہ عالم ہے کہ کسی چیز کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہونے کا دعوی کرتے ہیں ؛ حالانکہ وہ ایسا ہوتا نہیں ۔پھر یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ فضیلت کسی اورکو حاصل نہیں ہوسکی۔حالانکہ بسا اوقات وہ صحابہ کرام کے مشترکہ فضائل میں سے ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت شدہ فضائل عام ہیں جن میں دوسرے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں ۔ بخلاف حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ۔ ان دونوں حضرات کے ایسے فضائل اور خصوصیات ہیں جن میں کوئی دوسرا ان کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ پھر دوسرا دعوی کرتا ہے کہ اس فضیلت کی وجہ سے آپ کی امامت واجب ہوتی ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کسی چیز میں جزوی فضیلت سے نہ ہی مطلق فضیلت لازم آتی ہے اور نہ ہی امامت اور نہ ہی ایسی فضیلتیں امام کے لیے خاص ہوتی ہیں ۔بلکہ امام اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسے فضائل ثابت ہوتے ہیں ۔فاضل مطلق کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
اس رافضی نے اپنے دعوی کو تین مقدمات پر قائم کیا تھا۔ یہ تینوں باطل ہوئے ؛ پھر چوتھا دعوی کیا ؛ اس میں بھی نزاع ہے ۔ لیکن ہم اس میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کرتے۔بلکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جو افضل ہو وہی امامت کا مستحق ہے ۔ لیکن اس مسئلہ میں رافضی کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کی اکیسویں دلیل آیت قرآنی:﴿ہَلْ اَتٰی﴾ ہے ۔ مفسرثعلبی نے متعدد طرق سے روایت کیا ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما بیمار پڑ گئے۔ تو ان کے نانا اور عام عرب لوگ بیمار پرسی کے لیے آئے۔ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا، ابو الحسن! اپنے بچوں کے لیے نذر مانیے۔ آپ نے تین دن روزہ کی منت مانی۔ اسی طرح ان کی والدہ نے بھی نذر مانی۔اور فضہ نامی ان کی لونڈی نے بھی ایسے ہی نذر مانی۔ چنانچہ بچے تندرست ہو گئے۔آل محمد کے گھر میں تھوڑا یا بہت کھانے کو کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تین صاع جو قرض
|