جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ترجیح اور استحقاق پر لوگوں کا ایسا اجماع ہو جیسا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا۔ پس جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوکر کسی کی بیعت کرنا چاہے تو اسے قتل کردو۔ اورانہوں نے اس کے شر سے پناہ نہیں مانگی ‘ بلکہ یہ بتایا ہے کہ اجماع کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فتنہ کے شر سے بچا لیا ۔
فصل:....[ خلفاء ثلاثہ پر کم علمی کا بہتان]
[اشکال]:رافضی کا کہنا ہے کہ : سوم : خلفاء ثلاثہ کا علم میں کم تر ہونا اور اکثر واقعات میں ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔‘‘
[جواب ]: یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ علم حاصل کیا ہو۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے روایات اخذ کیں ؛ ان کی پیروی کی ؛ اور ان کی سیرت کی اتباع کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ استفادہ کیا ہے ؛ لیکن اس کی مقدار اس سے بہت کم ہے جو استفادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اگرچہ علم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کم تھے ؛ لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کے محتاج نہ تھے۔ حتی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زکواۃ وصول کرنے والے کارندوں کی شکایت بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کی؛ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ [زکواۃ] اور صدقات کے مسائل پر مشتمل ایک کتاب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘
انہوں نے سچ کہا تھا ‘ اس لیے کہ زکواۃ کے نصابوں اور مقررہ مقدار مال جو زکواۃ میں ادا کیا جائے ‘ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے۔ جس میں کسی رائے کو کوئی دخل نہیں ۔اور یہ چار مأخذ سے حاصل کیا گیا ہے ۔ ان میں سے علماء مسلمین کی نظر میں سب سے زیادہ صحیح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتاب ہے جسے انہوں نے انس بن مالک کے لیے لکھا تھا۔ اوراس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت بھی کیا ہے ۔ اور اکثر ائمہ کے ہاں اسی پر عمل ہے ۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب کا نمبر آتا ہے ۔
[تیسرا مأخذ] جو کتاب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی اس میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر علماء کرام رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کا بھی عمل ثابت نہیں ۔ مثلاً :’’ہر پچیس میں بکری کا پانچواں حصہ واجب ہے ۔‘‘
یہ قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی متواتر دلائل کے خلاف ہے۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے ‘ یا تووہ منسوخ ہوگیا تھا یا پھر اس کے نقل کرنے میں غلطی ہوگئی ہے۔
چوتھا مأخذ : حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی کتاب ہے ۔جو انہوں نے اس وقت لکھی تھی جب انہیں نجران بھیجا گیا تھا۔
|