حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتاب ان سب کے آخر میں لکھی گئی۔ تو کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اکثر احکام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ جب کہ آپ کے دور کے قاضی بھی آپ کی طرف رجوع نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ قاضی شریح ‘ عبیدہ سلیمانی رحمہما اللہ اورآپ کے عہد کے دوسرے قاضی اس علم کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے سیکھا تھا۔
قاضی شریح رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا تھا۔ اورعبیدہ سلیمانی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سے علم حاصل کیا تھا۔ یہ حضرات اپنے عام قضایا میں آپ سے مشورہ تک بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے پاس موجود علم کی وجہ سے وہ اس چیز سے بے نیاز تھے۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اپنے اکثر مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میری اور عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ام الولد کو نہ بیچا جائے ؛ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ۔‘‘ اس پر عبیدہ سلیمانی رحمہ اللہ نے کہا : ’’ آپ کی رائے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور باقی جماعت کے ساتھ ہو وہ ہمارے نزدیک آپ کی انفرادی رائے سے بہتر ہے ۔‘‘
یہ تو آپ کے قاضی ہیں جو اس مسئلہ میں آپ کی رائے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ حالانکہ اکثر لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں ام الولد کی فروخت سے منع کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ اس بارے میں کو ئی صریح نص موجود نہیں ۔ پس جب وہ اس جیسے مسئلہ میں آپ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے ؛ پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان باقی امور میں آپ کی طرف رجوع کرتے ہوں گے جن میں کافی و شافی نصوص وارد ہوئی ہوں ۔
آپ کے قاضی فیصلہ کرتے وقت بھی آپ سے مشورہ نہیں کیا کرتے تھے۔اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ یہ قضاۃ کوئی فیصلہ کرتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی تردید کردیتے ۔ کیونکہ وہ فیصلہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول کے مخالف ہوتا۔ جیسے : جب دو چچا زاد بھائی اور دو سگے بھائی؛ان میں جب ایک دوسرے کا ماں شریک بھائی ہو توانہوں نے اس کے لیے سارے مال کا فیصلہ دے دیا۔مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی اورفرمایا:’’اسے چھٹا حصہ ملے گا‘اور باقی مال میں وہ دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔حضرت زید وغیرہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی قول ہے۔اس وقت میں لوگ کسی ایک کے قول کے مقلد نہیں ہوا کرتے تھے۔
دادا کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو فیصلہ ہے ‘ حضرات علماء کرام رحمہم اللہ میں سے کوئی ایک بھی اس کا قائل نہیں ہے ؛ سوائے ابن ابی لیلیٰ کے۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاقول ان کے کوفی شاگردوں نے لیا ہے۔ اسی طرح حضرت زید کا قول بھی علماء کرام کی ایک جماعت نے قبول کیا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول جمہور صحابہ کرام نے لیا ہے۔امام شافعی اور امام محمد بن نصر المروزی رحمہما اللہ نے ایک بڑی کتاب مرتب کی ہے جس میں انہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وہ اقوال جمع کیے ہیں جنہیں مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اختیار نہیں کیا ۔ اس لیے کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا
|