کافر کو بھی قتل کردیا۔
نقل کیا گیا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دس ؛یا اس سے بھی کم یا اس سے کچھ زیادہ کافروں کو قتل کیا تھا۔
جوکچھ ابن ہشام ‘اوراس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ ‘اور اموی نے ذکر کیاہے ؛ ان تمام نے زیادہ سے زیادہ آپ کے ہاتھوں سے گیارہ کفار کا قتل ہونا بتایا ہے ۔جب کہ چھ کفار کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا قتل کرنے والا کون تھا۔ تین کفار کے قتل میں آپ نے شراکت کی ہے ۔اہل صدق و امانت نے یہی نقل کیا ہے۔
غزوۂ احداورشیعہ کی افتراء پردازی:
[الزام] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ احد کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا سب لوگ بھاگ گئے تھے، بعد ازاں چند صحابہ لوٹ آئے سب سے پہلے عاصم بن ثابت و ابودجانہ و سہل بن حُنیف آئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد آئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ نے بہت دیر لگا دی۔‘‘ فرشتوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ثبات و استقلال پر تعجب کا اظہار کیا تو جبریل نے آسمان پر چڑھتے ہوئے کہا:’’ تلوار ہے تو ذوالفقار اور جوان ہے تو علی۔‘‘ اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اکثر مشرکین کو قتل کیا تھا اور آپ کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے : ’’ احد کے دن مجھے سولہ زخم پہنچے ۔ان میں سے چار زخم کھا کر میں زمین پر گر گیا تھا۔تومیرے پاس ایک خوبصورت چہرہ والا خوبصورت زلفوں والا ‘اور پاکیزہ خوشبو والا ایک آدمی آیا۔اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کردیا ۔اور پھر کہا : آگے بڑھو‘اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں قتال کرو۔ یہ دونوں تم سے راضی ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس واقعہ کی خبر دی۔تو آپ نے فرمایا: اے علی ! کیاتم اسے نہیں جانتے ؟ میں نے کہا نہیں ؛ لیکن دحیہ کلبی سے مشابہت رکھتا تھا۔‘‘آپ نے پھر فرمایا: ’’ اے علی! اللہ تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کردے وہ جبریل امین تھے ۔‘‘
[جواب]: اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی ان بڑی جھوٹی روایات میں سے ہے جو صرف ان لوگوں کو جچتی ہیں جنہیں اسلام کی کوئی معرفت نہیں ۔[ شیعہ مصنف شرم و حیاء کے جذبات کو بالائے طاق رکھ کر ایسے اکاذیب نقل کرتا چلا آرہا ہے جن کو چوپائے تو تسلیم کر سکتے ہیں ، مگر ایک سلیم العقل انسان کبھی ماننے کے لیے تیار نہیں]۔ گویا کہ وہ یہ باتیں ایسے لوگوں کو بتارہا ہے جنہیں غزوات کے واقعات کے بارے میں کچھ بھی علم ہی نہ ہو۔‘‘
اس کا یہ قول بڑا حیرت ناک ہے کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے غزوۂ احد میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ : جھوٹ کی اصل بنیادی آفت جہالت ہوتی ہے۔کیا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تھی؟ شروع میں تو مسلمانوں نے دشمن کوپسپا کیا تھا ؛ مگر جبل الرماۃ پر متعین دستہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال میں اپنی جگہ پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی تھی؛اور فرمایا تھا:خواہ انہیں فتح ہویا شکست مگریہ لوگ اپنی جگہ نہ چھوڑیں ۔پس جب مشرکین پسپا ہوئے تو بعض لوگ چیخ کر آواز لگانے لگے : لوگو! مال غنیمت!۔انہیں ان کے امیر عبداللہ
|