لیتا،وہ امیر ہوتا اور میں وزیر۔‘‘
ہم سب سے پہلے کہتے ہیں : مصنف نے اس قول کی کوئی سند ذکر نہیں کی اور نہ ہی اس کی صحت بیان کی ہے۔ بالفرض مان لیجیے کہ اگر آپ نے یہ کہا بھی ہے تو یہ آپ کے زہد و ورع اور خوف الٰہی کی نشانی ہے۔
فصل:....[ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:نوواں سبب: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش اسامہ کو تیار کرنے کا حکم دیا تھا؛ اور بار بار اس لشکر کو روانہ کرنے کاحکم دیا۔ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لشکر میں اس لیے روانہ نہ کیا تاکہ آپ کے بعد کوئی اور شخص خلافت پر قابض نہ ہو جائے؛ مگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ بات قبول نہ کی۔‘‘
[جواب]:اس کے جواب میں کئی پہلو ہیں :
پہلی بات:....ہم شیعہ مصنف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ا س کی صحت ثابت کرے،یہ روایت صاف جھوٹ ہے۔یہ واقعہ نہ ہی کسی معروف سند سے روایت کیا گیا ہے‘ اور نہ ہی علماء کرام میں سے کسی ایک نے اسے صحیح کہا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کسی نقلی دلیل سے احتجاج اسی صورت میں درست ہوتا ہے جب اس کی صحت معلوم ہو جائے،وگرنہ جس کی مرضی جو چاہے کہتا پھرے۔
دوسری بات:....اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام علماء کرام کا اجماع ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یا عثمان رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں ہر گز شامل نہ تھے، البتہ ایک قول کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ س میں موجود تھے۔ روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام صلوٰۃ مقرر کیا تھا؛وقت انتقال تک آپ ہی امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جس روز آپ کی وفات ہوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔[1] پھر یہ بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں شامل تھے؟
تیسری بات:....اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تو صحابہ آپ کی مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ صحابہ کرام اﷲ و رسول کے سچے اطاعت کیش تھے اور وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے تھے کہ بصراحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ خلیفہ کی جگہ از خود کسی اور کو مقرر کردیں ،اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں ۔حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر دو تہائی مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ لڑی ؛ مگر ان میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے خلیفہ ہونے کی نص موجود ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سارے صحابہ آپ کے ساتھ مل کر جنگ کرتے۔
|