امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ: قرآن خالق ہے یا مخلوق ؟ تو انھوں نے فرمایا:
’’وہ نہ ہی خالق ہے اور نہ ہی مخلوق؛ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ اﷲ کا کلام ہے۔‘‘
[واصل بن عطاء اور محمد بن حنفیہ کی شاگردی]
رہا رافضی کا یہ قول کہ : ’’ واصل بن عطاء نے ابو ہاشم بن محمد بن الحنفیہ سے علم حاصل کیا تھا۔‘‘
[اس کا جواب یہ ہے کہ]: اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن بن محمد بن حنفیہ [1]نے معتزلہ کے قول کے برعکس ’’ارجاء ‘‘ کے مسئلہ پر ایک کتاب تالیف کی تھی۔کئی اہل علم نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس معتزلی مذہب سے متناقض ہے ؛ جس کا اظہار واصل بن عطاء کیا کرتا تھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ :اس نے ابو ہاشم سے علم حاصل کیا تھا۔[2]
اس ابو ہاشم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس پر انکار کیا گیا ؛نہ ہی اس کے بھائیوں نے اس پر موافقت کی اور نہ ہی اہل بیت نے۔اورنہ ہی اس نے اپنے والد سے علم حاصل کیا تھا۔
خواہ کچھ بھی ہو‘ وہ کتاب جو حسن کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ اس کتاب کے متناقض ہے جو ابو ہاشم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ :اس نے اس کتاب سے رجوع کرلیا تھا۔ اور یہ بات ممتنع ہے کہ ان دونوں نے یہ متناقض علوم اپنے والد محمدبن الحنفیہ سے حاصل کیے ہوں ۔ محمد کی طرف ان دومیں سے ایک کتاب کی نسب زیادہ مناسب ہے۔ پس اس سے قطعی طور پر یہ باطل ثابت ہوگیا محمد بن حنفیہ ایک ہی وقت میں دو مختلف عقائد کے قائل نہیں ہوسکتے۔ بلکہ یہ بات دو ٹوک اور قطعی یقینی ہے کہ محمد مرجئہ کے عقیدہ سے برأت کے ساتھ ساتھ معتزلہ کے عقیدہ سے بھی اس سے بڑھ کر بری ہیں ۔اور ان کے والدحضرت علی رضی اللہ عنہ مرجئہ اورمعتزلہ سے اس سے بڑھ کر بری ہیں ۔
جب کہ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ علی جبائی کے شاگرد تھے؛ مگر انھوں نے جبائی کو چھوڑ دیا تھا ؛ اور اس کے مذہب سے جملہ طور پر رجوع کرلیا تھا۔ اگرچہ آپ کے ہاں ان کے مذہب کے اصولوں کی کچھ بقایا رہ گئی تھیں ۔لیکن آپ نے نفی صفات کے مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ؛ اور ابن کلاب کے مذہب پر گامزن ہوگئے۔ اور قدر‘ ایمان اوراسماء و احکام کے مسائل میں ان کی مخالفت کی؛اورحسین بن نجار اورضرار بن عمرو کے رد سے بڑھ کر ان کارد کیا؛ حالانکہ یہ دونوں حضرات اس باب میں جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کی طرح متوسط شمار کیے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس مسئلہ میں جہم کے عقیدہ کی طرف مائل ہوگئے ‘ مگر وعید کے مسئلہ پر ان کی مخالفت کی۔ پھر اہل سنت و الجماعت کا مذہب
|