معصوم کے علاوہ کسی کو یہ علم حاصل نہیں ہوسکتا ؛ ایسے ہی یہ بات کہنا بھی جائز نہیں کہ امام معصوم کے علاوہ کسی کا سچا ہونا معلوم نہیں ہوسکتا۔
٭ دسویں بات: تصور کیجیے : اس سے مراد : صدق کا علم ہمیں حاصل ہوگیا؛ لیکن یہ کہا جائے گا کہ : بیشک ابو بکر و عمر اور عثمان اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم جن کی صداقت معلوم ہے؛ اور جوعمداً جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے ؛ اگرچہ ان سے خطاء یا بعض گناہوں کا سرزد ہونا جائز ہوسکتا ہے ؛جب کہ جھوٹ توبلا ریب بہت بری چیز ہے ؛اس لیے کہ علمائے کرام رحمہم اللہ کے ایک قول کے مطابق صرف ایک جھوٹ بولنے کی وجہ سے گواہی رد کی جاسکتی ہے۔ اور امام احمد سے بھی دو روایتوں میں سے ایک یہی ہے ۔ اس بارے میں ایک مرسل حدیث بھی روایت کی گئی ہے۔تو ہم یقینی طور پر اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر کسی حال میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔اور ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ ہم جھوٹ کا منفی ہونا صرف اس کے بارے میں جان سکتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں یقینی طور پر علم ہو کہ معصوم مطلق ہے۔ بلکہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اگر آپ پرکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ اگرچہ اس سے غلطیاں بھی ہوتی ہوں ؛ اور بعض دوسرے گناہ بھی سر زد ہوتے ہوں ۔ اور ہم یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جو کوئی معصوم نہیں وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے ۔
یہ بات خلاف واقع ہے۔اس لیے کہ عمداً جھوٹ صرف وہی انسان بول سکتا ہے جو لوگوں میں سب سے زیادہ برا ہو۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتا ہو۔
اہل علم حضرات جیسے : مالک ؛شعبہ ؛ یحی بن سعید ؛ثوری؛ شافعی؛اوراحمد بن حنبل رحمہم اللہ جیسے لوگ یقینی طور پرجان بوجھ کر کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے تھے؛ نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور نہ ہی کسی دوسرے پر۔تو پھر ابن عمر ؛ ابن عباس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم جیسے لوگوں کے متعلق ہم کیا کہہ سکتے ہیں ؟
٭ گیارھویں بات : اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس سے مراد معصوم ہی ہے ؛ تو پھر بھی ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عصمت کی نفی پر اجماع کو تسلیم نہیں کرتے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے ۔بیشک بہت سارے وہ لوگ جو کہ رافضہ سے درجہا بہتر ہیں ؛ وہ اپنے شیوخ کے متعلق بھی اسی قسم کے دعوے کرتے ہیں ؛ اگرچہ انہوں نے اس عبارت میں تھوڑی سی تبدیلی کردی ہے۔ ہم ان کی عصمت کو بھی باقی لوگوں سے عصمت کی نفی کے ساتھ تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر عصمت ہوگی تو سب کے لیے اور اگر اس کی نفی کی جائے گی تو سب سے نفی کی جائے گی۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھتیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھتیسویں دلیل یہ آیت قرآنی ہے:
|