Maktaba Wahhabi

79 - 764
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بہت زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ تکلیف دی گئی ۔ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے عمر میں زیادہ بڑے بھی تھے۔ ایسے بھی تھے جن کے پاس وہ علم تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس نہیں تھا۔ خلاصہ کلام ! انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی دوسرے نبی کی صفات ہر لحاظ سے اس میں موجود ہوں ۔اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک میں دوسری صحابی کی کوئی صفت ہر لحاظ سے پوری طرح موجود ہوسکتی ہے ۔ بلکہ مفضول میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی یگانہ چیزہوتی ہے جس میں وہ فاضل سے آگے ہوتا ہے ؛ لیکن بات یہ ہے کہ مجموعی طورپر ساری صفات کو جمع کرکے انہیں معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل یہ آیت ہے: ﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ [الشوری۲۳] ’’ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ [الشوری۲۳] ’’ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘ تو صحابہ نے عرض کیا:اے اﷲ کے رسول! آپ کے کون سے قریبی رشتہ دار ہیں جن سے محبت رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کے دونوں بیٹے۔‘‘ تفسیر ثعلبی اور بخاری و مسلم میں بھی اسی طرح مروی ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا دیگرتینوں خلفاء و صحابہ سے محبت رکھنا واجب نہیں ۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے افضل ٹھہرے اور وہی امام ہوں گے۔ بنا بریں ان کی مخالفت محبت کے منافی ہے اور محبت کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے، لہٰذا آپ واجب الاطاعت ہوئے۔امامت سے یہی مراد ہوتی ہے ۔‘‘[شیعہ کا کلام ختم ہوا]۔ [جواب]:اس کاجواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے: پہلی وجہ:....ہم اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ شیعہ کا یہ کہنا کہ : امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ‘‘ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ماشاء اللہ کہ مسند احمد کے کئی نسخے موجود ہیں ۔ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ روایت موجود نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا جھوٹ یہ ہے کہ شیعہ کہتا ہے: یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔حالانکہ ان دونوں کتابوں میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ۔ بلکہ مسند اور صحیحین میں ایسی احادیث موجود ہیں ، جو اس کی نقیض ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضی مصنف اور اس جیسے دوسرے ان کے علماء اہل علم کی کتابوں سے جاہل ہیں ۔ نہ ہی
Flag Counter