ان کا مطالعہ کرتے ہیں او رنہ ہی ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کتابوں میں کیا ہے ۔ میں نے ان میں سے بعض کودیکھا؛ اس نے احادیث کی متعدد کتابوں سے ایک کتاب جمع کی تھی۔ اس کی روایات کو کبھی بخاری کی طرف منسوب کرتا اورکبھی مسلم کی طرف ؛ کبھی مسند احمد کی طرف اور کبھی مغازلی اور موفق کی طرف ؛ اور کبھی خطیب خوارزمی اور ثعلبی اور ان جیسے لوگوں کی طرف۔ اس نے اپنی اس کتاب کا نام رکھا تھا: ’’ الطرایف في الرد علی الطوائف ۔‘‘ اور ایک دوسرے ابن بطریق نامی شیعہ مصنف نے ایک ایسی ہی کتاب تصنیف کی اور اس کا نام رکھا:’’ العمدۃ۔‘‘
اپنی روایات میں کثرت کے ساتھ جھوٹ بولنے کے باوجود یہ لوگ پھر بھی ابو جعفر محمد بن علی اور اس کے امثال سے کسی قدر بہتر ہیں ۔ابو جعفر نے بھی ان لوگوں کے لیے تصانیف لکھی ہیں ؛ او ران میں جھوٹ کی اس قدر بھر مار ہے کہ یہ جھوٹ صرف انتہائی جاہل ترین انسان پر ہی مخفی رہ سکتا ہے۔اور میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ بہت ساری روایات کو بخاری و مسلم اور مسند احمد کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان کتابوں میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہوتی۔ مسند احمد کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں جن کی اصل میں کوئی حقیقت ہی نہیں ۔ مسند احمد کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں جن کی اس کتاب میں کوئی اصل موجود ہی نہیں ۔
لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فضائل میں ایک کتاب تصنیف کی تھی ؛ اس میں آپ ایسی روایات لائے ہیں جو کہ مسند میں نہیں ہیں ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ امام احمد جو کچھ مسند یا کسی دوسری کتاب میں روایت کرتے ہیں وہ حجت ہوجاتا ہے۔ بلکہ آپ بھی ایسے ہی روایت کرتے ہیں جیسے دوسرے اہل علم روایات نقل کرتے ہیں ۔ امام احمد نے مسند میں یہ شرط لگائی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے روایت نہیں کرتے جو آپ کے نزدیک جھوٹ بولنے میں مشہور ہوں ۔ اگرچہ اس میں ضعیف روایات آجاتی ہیں ۔ مسند میں آپ کی شرط ایسے ہی ہے جیسے ابو داؤد نے سنن میں شرط لگائی ہے۔
جبکہ فضائل کی کتابوں میں آپ وہی کچھ روایت کرتے ہیں جو اپنے مشائخ سے سنتے ہیں ؛ خواہ وہ صحیح ہو یا ضعیف۔ اس لیے کہ ان میں مقصود یہ نہیں ہوتا کہ آپ وہی روایت نقل کریں جو آپ کے ہاں ثابت ہو۔ پھر اس کے بعد امام احمد کے بیٹے نے اس میں کچھ روایات زیادہ کی ہیں ۔ اور پھر ابو بکر القطیعی نے بھی اس میں روایات زیادہ کی ہیں ۔ جو روایات قطیعی نے زیادہ کی ہیں ان میں جھوٹ اور موضوع روایات بھی ہیں ۔ پھر ان لوگوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ کی مسند کا نام سن لیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ مسند أحمد میں جو کچھ ہے وہ سب امام احمد کا روایت کردہ ہے۔یہ بہت بڑی غلطی ہے۔اس لیے کہ جن مشائخ کا اس میں ذکر کیا گیا ہے وہ قطیعی کے مشائخ ہیں جو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے متأخر لوگ ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہ امام احمد سے روایت کرتے ہیں ۔امام احمد ان سے روایت نہیں کرتے۔یہ امام احمد کی کتاب مسند؛ کتاب الزہد؛ ناسخ اور منسوخ؛کتاب التفسیر؛اور دوسری کتابیں ہیں ۔آپ یوں روایت کرتے ہیں :
|