((حدثنا وِکیع، حدثنا عبد الرحمنِ بن مہدِی، حدثنا سفیان، حدثنا عبد الرزاقِ۔))
یہ امام احمد رحمہ اللہ کی سند ہے۔ اس کے برعکس عبداللہ رحمہ اللہ کی سند یوں آتی ہے:
((حدثنا أبو معمر القطِیعِی، حدثنا علِی بن الجعدِ، حدثنا أبو نصر التمار۔ ))
آپ کی کتاب فضائل صحابہ میں دونوں قسم کی اسناد پائی جاتی ہیں ۔ اور اس میں کچھ زیادات قطیعی سے بھی منقول ہیں ۔ وہ احمد بن عبد الجبار الصوفی اور اس کے امثال جیسے عبداللہ بن احمد کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کرتا ہے۔ اس کی آخری حدیہ ہے کہ اس نے امام احمد رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہو۔ اس لیے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے آخری عمر میں حدیث کی روایت ترک کردی تھی۔ اس لیے کہ خلیفہ نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ خلیفہ اور اس کے بیٹے کو تعلیم دیں اور ان کے پاس ہی قیام کریں ۔ آپ کو اپنے آپ پر دنیاکا فتنہ محسوس ہوا تو آپ نے مطلق طور پر حدیث روایت کرنا ترک کردیاتاکہ اس فتنہ سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس لیے کہ اس سے پہلے خلفاء کے ساتھ جو احوال پیش آچکے تھے وہ مخفی نہیں تھے۔
قطیعی اپنی روایات کو اپنے مشائخ کے اساتذہ سے روایت کرتا تھا۔ اس سے روایت سننے والے خوش ہو جاتے تھے۔ قطیعی نے آپ کے شیوخ کے نام پر جو روایات نقل کی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ ہی جھوٹ ہیں ۔ پس جب ان لوگوں کے ہاتھ یہ کتاب لگی تو انہوں نے باقی تمام صحابہ کرام کے فضائل نہیں دیکھے؛ بس صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل دیکھ لینے پر اکتفا کر لیا۔اور جیسے جیسے مزید احادیث دیکھتے پڑھتے جاتے تو یہ خیال کرتے کہ ان کو روایت کرنے والے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو رجال اور ان کے طبقات کا علم ہی نہیں ۔ اور یہ بات ممتنع ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ قطیعی کے مشائخ سے کوئی روایت نقل کریں ۔
ان لوگوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ کی مسند کا نام سن لیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ مسند أحمد میں جو کچھ ہے وہ سب امام احمد کا روایت کردہ ہے ۔چنانچہ امام احمد کی مسند میں جو قطیعی کی زیادہ کردہ روایات ہیں ؛ وہ ان کو بھی امام احمد کی روایات شمار کرنے لگ گئے۔ اور بسا اوقات قطیعی کی روایات پر بھی زیادہ کردیتے ہیں ؛ اس لیے کہ یہ لوگ جھوٹ سے ہر گز نہیں بچ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ’’ الطرائف ‘‘اور ’’العمدۃ ‘‘ کے مصنفین کبھی امام احمد رحمہ اللہ کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں ؛ جو تو امام احمد نے نہ ہی کسی کتاب میں روایت کی ہوتی ہیں ؛ اور نہ ہی آپ نے کبھی وہ روایات سنی ہوں گی۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ : وہ روایات قطیعی نے زیادہ کی ہوں ۔ اور قطیعی نے جو من گھڑت اور جھوٹی روایات اس میں داخل کی ہیں ؛ وہ کسی بھی عالم پر مخفی نہیں ہیں ۔[1]
|