Maktaba Wahhabi

82 - 764
اس رافضی کذاب کی نقول بھی ’’ العمدۃ ‘‘ اور ’’ الطرائف ‘‘ کے مصنفین کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ معلوم نہیں کہ اس مصنف نے انہی کتابوں سے یہ سب کچھ نقل کیا ہے ؛ یا پھر ان کے ناقلین سے نقل کیا ہے ۔وگرنہ جس انسان کو علم کی ادنی سی بھی معرفت ہو ؛ اسے ایسی روایات صحیحین یا مسند احمد کی طرف منسوب کرنے سے حیاء آتی ہے۔ صحیحین اور مسند کے نسخوں سے زمین بھری ہوئی ہے ؛ ان میں کہیں بھی اس قسم کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ بلکہ حقیقت میں کسی بھی قابل اعتماد اہل علم نے اسے روایت نہیں کیا۔ اس قسم کی روایات وہی نقل کرتے ہیں جو رات کے اندھیرے میں لکڑیاں چن رہے ہوتے ہیں ۔جیسے ثعلبی اور اس جیسے دوسرے مصنفین ؛ جو کہ ہر موٹی اور چھوٹی چیزکو جمع کر لیتے ہیں مگر صحیح اور خراب کی تمیز سے عاری ہوتے ہیں ۔ دوسری وجہ :....یہ حدیث باتفاق محدثین و اہل علم جھوٹ ہے۔حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اس حدیث کی حقیقت جاننے کے لیے ان ہی سے پوچھنا چاہیے کہ یہ کہاں سے گھڑ لائے ہیں ؟ تیسری وجہ:....اس پرمزید یہ کہ مذکورہ صدر آیت سورۂ شوریٰ میں شامل ہے، جو بالاتفاق مکی سورۃ ہے۔بلکہ تمام وہ سورتیں جو ’’ حَ،م سے شروع ہوتی ہیں ؛وہ مکہ میں نازل ہوئی ہیں ۔اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ یہ بھی معلوم شدہ بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مدینہ میں ہوا تھا۔ حضرت حسن ۳ھ میں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ۴ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح یہ سورت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے وجود سے بھی کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ تو پھراب سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکی آیت کی تفسیر میں ان لوگوں کی محبت کو کیوں کر واجب قرار دے سکتے تھے ؛ جو کہ ابھی تک نہ ہی پیدا ہوئے ‘ اور نہ ہی ان کو کوئی پہچانتا تھا۔ چوتھی وجہ :....صحیح بخاری میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳] ’’ کہہ دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے قرابت کا تعلق رکھنے والوں کی بابت اذیت نہ دو ۔‘‘ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آپ نے جلد بازی سے کام لیا، قریش کا کوئی چھوٹا بڑا قبیلہ بھی ایسا نہ تھا جس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دارانہ روابط نہ ہوں ۔ اس لیے فرمایا ﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا﴾ یعنی اس قرابت داری کی بنا پر جو میں آپ سے رکھتا ہوں میں چاہتا ہوں تم مجھ سے محبت کا سلوک روا رکھو۔‘‘[1] آپ نے مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ملاحظہ کیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل بیت میں سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ نہیں کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی محبت کاسوال کرتا ہوں ۔بلکہ اس
Flag Counter