کا معنی یہ ہے کہ : اے اہل عرب ! اے قریش کی جماعت ! میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جو میرے اور آپ کے درمیان تعلق ہے : اس صلہ رحمی کا خیال کیجیے۔ اس پر کسی قسم کی سرکشی اور ظلم نہ کرو ؛ اور مجھے اللہ کے دین کی دعوت دینے دو۔
پانچویں وجہ:....اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳]
’’ کہہ دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘
یہ امر قابل غور ہے کہ آیت کے الفاظ ہیں ﴿ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ یوں نہیں فرمایا:﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِلْقُرْبٰی﴾ اور یوں بھی نہیں فرمایا:﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ اور اگر وہ مطلب مراد ہوتا جو شیعہ کہتے ہیں تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے ﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:
۱....﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی ﴾ (الأنفال۴۱)
’’جان لو کہ تم جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ اللہ کا ہے اور رسول کا اوراہل قرابت کا ۔‘‘
۲....﴿مَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی ﴾ (الحشر:۷)
’’ بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا ۔‘‘
۳....﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ﴾ (الروم:۳۸)
’’ قرابت داروں کو ان کا حق ادا کیجیے؛ اور مساکین کو اور مسافروں کوبھی ۔‘‘
۴....﴿ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی﴾ (البقرۃ:۱۷۷)
’’ اور اللہ کی محبت میں مال دیا اپنے قرابت داروں کو ۔‘‘
اس طرح کی آیات دیگر بھی کئی مقامات پر آئی ہیں ۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں اقارب کے حق میں وصیت کی گئی ہے اسی قسم کے الفاظ آئے ہیں ۔[جہاں پران کے حق میں وصیت ہے تو] اس کے لیے ﴿ذوالقربیٰ﴾ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔[یہاں پر بھی ]اگر اقارب مراد ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے :﴿اَلْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ یہاں پر ﴿في القربیٰ﴾ کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہاں اہل قرابت کی محبت کا سوال نہیں ‘ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت کی محبت کی رعایت کا کہا گیا ہے۔
چھٹی وجہ :....اگر یہاں پر اقارب مراد ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے:﴿اَلْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ ﴿في القربیٰ﴾کے الفاظ نہ ہوتے۔ اس لیے کہ عربی محاورہ میں یوں نہیں کہتے:﴿اَسْئَلُکَ الْمَوَدَّۃَ فِی فُلَانٍ﴾ بلکہ ’’ لفلان‘‘ بولتے ہیں ۔
|