ساتویں وجہ :....ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول تبلیغ شریعت کی اجرت ہر گز طلب نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اﷲسے اجرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ﴾ (الفرقان:۵۷)
’’فرما دیجئے: میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘
نیز فرمایا:﴿اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِنْ مَّغْرَمٍ مُثْقَلُوْنَ﴾ (الطور:۴۰)
’’ کیا آپ اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ۔‘‘
ارشاد ہوتا ہے:﴿قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ﴾ (سباء ۴۷)
’’ فرما دیجئے: جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے۔‘‘
لیکن یہاں پر استثناء منقطع ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِِلَّا مَنْ شَآئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ﴾ [الفرقان ۵۷]
’’کہہ دیجئے :میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راہ پکڑنا چاہے ۔‘‘
اس میں شبہ نہیں کہ اہل بیت کی محبت واجب ہے، مگر اس کا وجوب اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ ان کی محبت کو رسول کی اجرت بھی نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ وہ دیگر شرعی مامورا ت کی طرح عبادات کی حیثیت رکھتی ہے۔
حدیث صحیح میں آیا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’ میں تمھیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اﷲکو یاد دلاتا ہوں ۔ میں تمھیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اﷲکو یاد دلاتا ہوں ۔‘‘[1]
ابوداؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لوگ اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکیں گے جب تک اﷲتعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے اہل بیت کو چاہنے نہ لگیں ۔‘‘[2]
لیکن جس کسی نے اہل بیت کی محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجرت قرار دیا ہے؛ یقیناً اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اگر اہل بیت سے ہماری محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجرت رسالت میں داخل ہوتی تو ہمیں اس کا اجر وثواب نہ دیا جاتا۔اس لیے کہ ہم نے آپ کی وہ اجرت ادا کی تھی جس کا آپ رسالت کی بنا پر استحقاق رکھتے تھے۔ کیا کوئی مسلمان یہ
|