۱۔ پہلا موضوع کلام یہ ہے کہ فی الواقع حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہو ئے تھے یا نہیں ؟
۲۔ دوسرا یہ کہ آپ خلافت کی صلاحیت و اہلیت سے بہر ہ ور تھے بھی یا نہیں ؟
جہاں تک امر اوّل کا تعلق ہے آپ کا خلیفہ ہونا تواتر اور لوگوں کے اتفاق سے ثابت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس امت میں نائب رسول تھے؛ آپ خلیفہ بنے۔ آپ نے شرعی حدیں قائم کیں ۔ واجب الوصول حقوق وصول کیے ۔ کفار و مرتدین کے خلاف جنگ آزما ہوئے، عمال مقرر کیے، مال تقسیم کیا اور امیر و خلیفہ سے متعلق جملہ امور انجام دیے، بلکہ وہ اوّلیں شخص تھے جواس امت میں مرتبہ ء امامت پر فائز ہوئے۔
باقی رہا امر دوم یعنی آپ کا مستحق امامت ہونا تو اجماع کے سوا اور بھی کثیر دلائل موجود ہیں ۔ شیعہ جس طریقہ سے بھی امامت علی رضی اللہ عنہ کا اثبات کرتے ہیں ، ہم اسی طریقہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مستحق امامت ہونا ثابت کرتے ہیں ۔بلکہ یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے لوگوں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار تھے ۔ بہر کیف اجماع کی حاجت امر اوّل میں ہے امر دو م میں نہیں ۔ تاہم امر ثانی پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ہے۔
فصل :....[حجیت اجماع کی بحث]
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اجماع کسی مسئلہ پر دلالت کرنے میں اصل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا ؛بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اجماع کرنے والے اس حکم پر کسی دلیل کو مستند مانیں تاکہ اس پر ان کا اجماع ہوسکے۔ وگرنہ یہ غلطی ہوگی۔اور یہ دلیل یا توعقلی ہوگی یا پھر نقلی۔ جہاں تک عقلی دلیل کا تعلق ہے کوئی عقلی دلیل امامت پر دلالت نہیں کرتی۔ باقی رہی نقلی دلیل تو اہل سنت کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی امام مقرر کیے بغیر وفات پائی تھی۔اورامامت پر کوئی نص نہیں تھی۔قرآن اس سے خالی ہے۔ بنا بریں اگر اجماع منعقد ہوا بھی ہے تو وہ غلط ہونے کی وجہ سے کسی مسئلہ پر دلالت نہیں کرتا۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں :اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی بات : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’جماع کسی مسئلہ پر دلالت کرنے میں اصل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا ۔‘‘
جواب:’’ اگر اس قول سے تمہاری مراد یہ ہے کہ ارباب اجماع کے امیر کی اطاعت بذات خود واجب نہیں ہے ، بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ اﷲ و رسول کا حکم معلوم ہوتا ہے تو یہ صحیح ہے۔اس سے ہمارے نظریہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا، اس لیے کہ رسول بھی بذات خود مطاع نہیں ، بلکہ آپ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ آپ کی اطاعت دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے، کیوں کہ اسلام میں مُطاع حقیقی صرف اﷲ کی ذات ہے ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ﴾(الأعراف:۵۴)’’اوراللہ کے لیے ہی ہے پیدا کرنا اور حکم چلانا ۔‘‘
نیز فرمایا:﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ (الانعام:۵۷)
|