Maktaba Wahhabi

604 - 764
’’ بیشک حکم صرف اللہ کے لیے ہے ۔‘‘ اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی حکم نہیں چلتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس لیے واجب ہوتی ہے کہ آپ کی اطاعت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے۔ اور کسی چیز پر اجماع کرنے والے اہل ایمان کی اطاعت اس لیے واجب ہوتی ہے کہ حقیقت میں ان کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا اس لیے واجب ہے کہ آپ کا حکم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ایسے ہی امت کے اجماع کا مسئلہ بھی ہے ۔ ان کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے : آپ نے فرمایا: ’’ جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی حکم عدولی کی، اور جس نے میرے امیر کے حکم سے سرتابی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘[1] بہت ساری احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی ۔بلکہ جس چیزکا حکم امت دے ؛ وہ اللہ اوراس کے رسول کا حکم ہوتا ہے۔ امت نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں ان کی اطاعت کا حکم دیا ؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے یہ حکم دیا تھا۔ پس جس نے آپ کی نافرمانی کی ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا ہے۔ اگر تمہارا(شیعہ کا) مقصد یہ ہے کہ اجماع کبھی حق کے موافق ہوتا ہے اور کبھی مخالف تو یہ حجیت اجماع پر طعن ہے ۔ جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ پوری امت خطا پر جمع ہو سکتی ہے جیسا کہ نظام اور بعض روافض کا خیال ہے؛ تو یہ غلط ہے۔[2] اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا امام اور معصوم ہونا؛ اور اس کے علاوہ جو روافض کے اصول ہیں ؛ امامیہ نے انہیں اجماع سے ثابت کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کے قول کے مطابق ان کی مذہب کی بنیاد اجماع اور عقلیات پراور ان کی منقولات پر ہے۔یہی لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ عقل سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے امام معصوم اور منصوص علیہ کا ہونا ضروری ہے۔اوربالاجماع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ نہ ہی کوئی دوسرا معصوم ہے اورنہ ہی منصوص علیہ ہے۔تو پھر معصوم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہوئے؛ [لہٰذاوہی امام ہوں گے ]۔‘‘ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے ان کے مقدماتی دلائل ہیں ۔ ‘‘
Flag Counter