علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؛ اور حضرت ابوبکر نے اس کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ تو پھر حضرت ابوبکر یہ حق یا تو آپ کو تفویض کردیتے یا پھر اس معاملہ میں مجاملت سے کام لیتے ؛ یا پھر آپ کے سامنے کوئی عذر پیش کرتے۔ اور اگر حضرت ابوبکر اس پر بضد قائم رہتے تو پھر آپ ظالم ہوتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے اپنا دفاع کرتے اور آپ حق پر ہوتے۔اور شریعت اور عقل اور عادت اس چیز کو واجب کرتی تھی کہ لوگ حضرت ابوبکر کی سرکشی اور بغاوت کے خلاف حضرت علی امام معصوم اور امام برحق کے ساتھ ہوتے۔اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو ۔خصوصا جب کہ نفوس بڑی ولایت کی بیعت کے لیے قابل اطاعت لوگوں کی نسبت ایسے لوگوں کی بیعت سے متنفر تھے جو کہ اس کا اہل نہ ہو۔پس اسباب ہر لحاظ سے حضرت علی کے حق میں زیادہ اور بڑے تھے۔ اگر آپ ہی حق دار ہوتے ۔ اور یہ اسباب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہر لحاظ سے کمزور اور دور کے تھے اگر آپ باطل پر ہوتے۔
لیکن جب ہر طرح کے تقاضے حضرت ابوبکر کے حق میں تھے۔ اوریہ اللہ کا مضبوط دین ہے۔ اسلام کی حلاوت و طراوت اور اس کا اقبال اور سنجیدگی ہے؛ آپ ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ تو پھر واجب ہوگیا تھا کہ حق دار کو اس کے حق سے محروم نہ کیا جائے اور کسی دوسرے کو اس حق پر مسلط نہ کیا ہے۔ اگرچہ بعض کی خواہشات دوسروں کے ساتھ ہوں ۔ جب کہ حضرت ابوبکر تک کسی کی کوئی خواہش نہیں تھی سوائے اس دین کی خواہش کے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں ۔
جو کوئی ان باتوں پر اور ان جیسی دوسری باتوں اور اسباب پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے اضطراری طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت نبوت کے سب سے بڑے حق دار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔اور آپ کی ولایت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ راضی کرنے والی ہے؛ تو انہوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر لازم آتا تھا کہ وہ اس کی پہچان کروائیں یااس میں تحریف کریں ۔ یہ دونوں باتیں عادت اوردین کے اعتبار سے ممتنع تھیں ۔ اور اسباب متعدد تھے۔ پس یہ یقین طور پر معلوم شدہ امور ہیں جنہیں ایسی روایات کے مقابلہ میں رد نہیں کیا جاسکتا جن کے درست ہونے کا کوئی علم ہی نہیں ۔ اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان روایات و حکایات کا جھوٹ ہونا معلوم بھی ہوجائے۔ یا ایسے الفاظ کے مقابلہ میں کیسے رد کیا جاسکتا ہے جن کی دلالت کا ہی معلوم نہ ہو؛ اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان الفاظ کی دلالت کی نفی معلوم ہوجائے۔اور پھر ایسے قیاسات جن کا کوئی نظام ہی نہیں ۔ اور جن سے معقولات اور ثابت شدہ منقولات اور معلوم شدہ مدلولات بھی ٹکراتے ہوں تو پھرکون سی چیز حق کے زیادہ قریب اور اتباع کے لائق ہے۔
[ردِ حق میں روافض کا طریقہ:]
یہ روافض یقین طور پر معلوم شدہ حق کا انکارایسے شبہات کی بنیاد پر کرتے ہیں جو کسی انتہائی کمزورشبہ کو بھی قبول نہیں کرسکتے۔ تمام گروہوں سے بڑھ کر گمراہی اور کجی ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے جو متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکم کو چھوڑ دیتے ہیں ۔جیسے نصاری؛ جہمیہ ؛اور ان کے امثال و ہمنوا اہل بدعت اور ہوا پرست جو ایسی صحیح نصوص کو چھوڑ دیتے
|