Maktaba Wahhabi

346 - 764
ہیں جو علم کو واجب کرتی ہیں اور ان کے مقابلہ میں ایسے شبہات پیش کرتے ہیں جن سے صرف شک ہی پیدا ہوتا ہے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اور ان کی بھی اگر چھان بین ہو تو کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہ منقولات بھی ایسے ہی دھوکہ ہیں جیسے عقلیات میں دھوکہ ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ان چیزوں میں شبہ کی وجہ سے قدح اور تنقید ہے جو کہ حس اور عقل کی روشن میں معلوم ہوں ۔ پس جوکوئی چاہتا ہو کہ دلوں میں متسقر علم یقین کو شبہات کی بنیاد پر رد کرے تو یقیناً وہ دھوکہ باز فلاسفہ کی راہ پر چلتا ہے۔ اس سفسطہ کی کئی اقسام ہیں : اول:....حقائق اور ان سے متعلق علم کی نفی انکار اور تکذیب۔ دوم:....شک اور شبہ : یہ فرقہ لا ادریہ کا طریقہ ہے۔ جو ہر بات میں کہتے ہیں : لا أدری۔ یعنی ہم نہیں جانتے۔ وہ نہ ہی کوئی چیز ثابت کرتے ہیں اور نہ ہی کس چیز کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں وہ علم کی نفی کرتے ہیں ۔ اور یہ بھی نفی کی ہی ایک قسم ہے۔ پس یہ وہ مغالطہ بازی کی عادت ہے؛ جس میں معلوم شدہ حق یا اس کے متعلق علم کا انکار کیا جاتا ہے۔ سوم:....ان لوگوں کا عقیدہ جو حقائق کو عقائد کا تابع بناتے ہیں ۔ پس کوئی انسان کہتا ہے:جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ عالم قدیم ہے؛ تو پھر وہ قدیم ہی ہے؛ اور جو کوئی اعتقاد رکھتا ہو کہ عالم محدث ہے؛ تو وہ محدث ہی ہے۔اور اگر اس سے مراد یہ لی جائے کہ اس کے نزدیک قدیم ہے اور دوسرے کے نزدیک محدث ہے؛ تو پھر یہ بات درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اس انسان کا عقیدہ ہے۔ لیکن یہاں پر مغالطہ بازی یہ ہے کہ وہ خارج میں بھی ایسے ہی مراد لیتے ہیں ۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ خلفائے ثلاثہ کے جو احوال معلوم ہیں ؛ اورجو کچھ ان کی سیرت بعد میں ان روایات کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے جنہیں رافضی روایت کرتے ہیں ؛ جن میں وہ جمہور امت کی تکذیب کرتے ہیں ؛ تو یہ بہت بڑی دھوکہ بازی ہے۔ اور جن لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کے وہ فضائل بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے اصحاب پر ان کی تقدیم واجب ہوتی ہے ؛ تو وہ بھی بہت بڑا جھوٹا؛ باطل پرست اور مغالطہ بازی ہے۔ مگر اس کے باوجود رافضیوں کی نقل کردہ وہ روایات جن کی بنا پر وہ خلفائے ثلاثہ کے ایمان پر جرح و تنقید کرتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو واجب کرتے ہیں وہ ان روایات سے بڑا جھوٹ ہیں جن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم واجب ہوتی ہے۔ اور ان کی مغالطہ بازی ان سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے کہ کئی وجوہات کی بنا پر خلفائے ثلاثہ کے ایمان کا ظہور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے ظہور سے زیادہ بڑھ کر اور واضح ہے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کا اثبات حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کے اثبات کی نسبت حق سے بہت زیادہ دور ہے۔ پھر یہ کہ بیشک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے کمالات میں سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ رسول برحق تھے۔ اور دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ نہیں تھے۔ کیونکہ
Flag Counter