بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے قریب رشتہ داروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور انہیں ولایات سونپتے ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
اول:....انہیں دوسرے لوگوں کی نسبت اپنے اقارب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ جیسا کہ انسان کی طبیعت میں اپنے قرابت داروں کی طرف میلان ہوتا ہے۔
دوم:....اس لیے کہ بادشاہوں کے قرابت دار اپنی بادشاہت کو جس طرح قائم رکھنا چاہتے ہیں ؛ دوسرے لوگوں کو اس چیز سے کوئی ایسی غرض نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ انسان کے قرابت دار کی عزت و شان شوکت میں اس کی اپنی عزت اور شان و شوکت ہوتی ہے۔ اور بادشاہوں میں سے جس کے قرابت دار نہ ہوں وہ اپنے غلاموں اور موالیں سے مدد لیتا ہے۔ وہ انہیں اپنے قریب کرتا ہے؛ اور ان سے مدد حاصل کرتا ہے۔ اور یہ چیز بادشاہوں میں پائی جاتی ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا کفار۔
پس یہ وجہ ہے کہ جب بنو امیہ اور بنو عباس کے بادشاہ ؛ بادشاہ تھے تو وہ اپنے اقارب اور موالین کو زیادہ چاہتے تھے؛ اور انہیں دوسروں سے زیادہ ولایات اور مناصب سونپتے تھے۔ اور اس طرح انہوں نے اپن بادشاہ قائم رکھی ہوئی تھی۔ یہ حال دوسرے گروہوں کے بادشاہوں کا بھی تھا؛ جیسے بنو بویہ ؛ بنو سلجق؛ اور مشرق و مغرب اور شام اور یمن کے دیگر تمام بادشاہ۔
یہ حال کافر بادشاہوں کا بھی ہوتا ہے خواہ وہ مشرک ہوں یا اہل کتاب۔ جیسا کہ افرنگی بادشاہوں اور ان کے علاوہ دوسروں میں بھی پایا جاتا ہے۔اور جیسا کہ آل چنگیز خان میں بھی ہے۔ اس لیے کہ بادشاہی بادشاہ کے قریب رشتہ داروں میں باقی رہتی ہے۔ اور کہتے ہیں : یہ عظیم ہے اور یہ عظیم نہیں ؛ یعنی یہ بادشاہ کا قرابت دار ہے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ولایت سونپی گئی ؛ آپ کے چچاحضرت عباس؛آپ کے چچا زاد حضرت عل؛ حضرت عقیل؛اور ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب اور ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب اور دوسرے تمام لوگوں کو چھوڑ دینا؛ اور سارے بنی عبد مناب کو چھوڑ دینا جیسے حضرت عثمان بن عفان خالد بن سعید بن ابن العاص اور ابان بن سعید بن العاص اور دوسرے لوگ جن کا تعلق بنو عبدمناف سے تھا؛ اور قریش میں انہیں بہت بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اور نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھے۔ یہ اس بات کی بہت بڑ دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول تھے۔ اور بلاشبہ آپ کوئی بادشاہ نہیں تھے۔ کیونکہ آپ نے خلافت میں اپنے کسی قریب رشتہ دار کو خلافت یا منصب کے لیے آگے نہیں بڑھایا ۔ نہ قرابت نسبی کی وجہ سے نہ ہی گھرانے کے شرف و منزلت کی وجہ سے ۔ بلکہ آپ نے صرف اور صرف ایمان اور تقوی کو ہی تقدیم بخشی تھی۔
یہ اس بات کی بھی دلیل تھی کہ محمد رضی اللہ عنہم اور آپ کے بعد آپ کی امت صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں گے اور اس کی اطاعت بجا لائیں گے۔اوروہ ایسے کچھ بھی نہیں کریں گے جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔
|