نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس انسان کو صحیح سنت کی معلومات نہ ہوں ‘وہ اس مسئلہ میں شک کا شکار ہوجائے گا۔
٭ جب کہ باقی تمام مشہور ائمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ۔ یہ اجماع کئی لوگوں نے نقل کیا ہے۔امام بہیقی رحمہ اللہ نے کتاب ’’ مناقب الشافعی‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے باقی تمام صحابہ سے افضل ہونے میں صحابہ کرام اورتابعین رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کابھی اختلاف نہیں ہے۔‘‘[1]
٭ امام مالک رحمہ اللہ نے نافع سے اوروہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں : آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام کو ایک دوسرے پر فضیلت دیا کرتے تھے ؛ ہم کہا کرتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین انسان ابوبکر اوران کے بعدعمرہیں - رضی اللہ عنہما -۔اس بارے میں امام بخاری کاکلام گزر چکا ہے۔
٭ وہ شیعہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وقت گزارا؛ ان کا بھی یہی عقیدہ تھا۔یہی عقیدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسی (۸۰) سے زیادہ اسناد سے منقول ہے۔ یہ ایسی قطعی اور یقینی بات ہے جو کسی بھی ایسے انسان پر مخفی نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے احوال کی معرفت رکھتا ہے ۔
فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل: حدیث طیر]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’تمام جمہور نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندہ لایا گیا، تو آپ نے دعا کی :’’ اے اﷲ! اس پرندے کا گوشت کھانے کے لیے کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جو مجھے اور تجھے سب لوگوں میں سے عزیز تر ہو۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے؛ اور دروازے پر دستک دی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ پس آپ واپس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے کی طرح دعا کی؛ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ حضرت انس نے پھر کہا: کیا میں نے نہیں کہا کہ : آپ کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر واپس پلٹ گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے کی طرح دعا کی ؛ آپ پھر واپس آئے اور پہلے دو
|