حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں دوسری دلیل:
اشکال:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت علی رضی اللہ عنہ (بلا فصل ) کی دوسری دلیل یہ آیت قرآنی ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ﴾ [المائدۃ ۶۷]
’’ اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ۔‘‘
بالاتفاق یہ آیت کریمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ -جمہور میں سے-ابو نعیم اپنی سند سے ابن عطیہ سے روایت کرتے ہیں ‘ آپ بیان کرتے ہیں کہ یہ ’’ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری۔‘‘
تفسیر ثعلبی میں ہے:اس کا معنی یہ ہے کہ : ’’ آپ کے رب نے آپ پر جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں نازل کیا ہے ؛ اس کی تبلیغ کیجیے ۔ اس کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘’’ جس کا میں مولی ہوں ‘ علی بھی اس کا مولی ہے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے اجماعاً مولیٰ تھے، بنا بریں حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بھی مولیٰ ہوں گے ۔ لہٰذا وہی امام برحق ہوں گے۔
تفسیر ثعلبی میں ہے:’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ کے روز صحابہ کو پکارا جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘
چنانچہ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہو گئی، جب حارث بن نعمان فہری رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد مبارک سنا تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ پہنچا۔ اپنااونٹ وادی میں بٹھایااور اس کو باندھ دیا؛پھروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا:
’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں دو شہادتوں کا حکم دیا؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ نہیں ہمیں پانچ نمازوں کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی،پھر آپ نے ہمیں اپنے اموال سے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔ اور آپ نے ہمیں حکم دیاکہ ماہ رمضان کے روزے رکھیں ؛ہم نے آپ کی بات مان لی؛آپ نے ہمیں بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے ۔اب آپ نے اپنے چچا زاد بھائی علی کا سر اونچا کردیا اور اس کو ہم پر فوقیت بخشی ہے،اور آپ نے فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘ کیا آپ اپنی طرف سے یہ کہہ رہے ہیں یا اﷲکے حکم سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اﷲکی قسم! یہ اﷲکا حکم ہے۔‘‘ چنانچہ حارث یہ کہتے ہوئے اپنی سواری کی طرف رخصت ہو گیا کہ:’’اے اللہ! اگر یہ بات تیری جانب سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہمیں
|