چھٹی بات : عام لوگوں کے حق میں فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ﴾
(الحدید:۱۹)
’’جو لوگ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق ہیں ۔‘‘
یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر وہ شخص جو اﷲتعالیٰ اور رسولوں پر ایمان رکھتا ہے وہ صدیق ہے ۔
ساتویں بات:....اگر صدیق ہی امامت کا مستحق ہوسکتا ہے؛ توپھرصدیقیت کے اعتبار سے اس مقام کے سب سے زیادہ حق دار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔اس لیے کہ بہت سارے دلائل کی روشنی میں خواص و عوام میں تواتر کے ساتھ یہ نام آپ کے لیے ثابت ہے۔ یہاں تک اسلام کے دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔پس اس لیے امامت و خلافت کے سب سے زیادہ مستحق آپ ہی ہوئے ۔اور اگر صدیق ہونے سے امامت وخلافت لازم نہیں آتی توپھر رافضی کی دلیل باطل ٹھہری۔ [1]
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ستائیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ستائیسویں دلیل درج ذیل آیت ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی اللیل وَالنَّہَارِ سِرًّاوَّ عَلَانِیَۃً﴾ (البقرہ:۲۷۴)
’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن میں چھپ کر اورکھلے عام خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
ابو نعیم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کے پاس چار درہم تھے۔ ایک درہم رات کے وقت خرچ کیا ایک دن کے وقت ایک خفیہ اور ایک علانیہ۔ ایسی روایت ثعلبی نے بھی ذکر کی ہے ۔چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس فضیلت میں منفرد ہیں ، لہٰذا امام بھی وہی ہیں ۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
[جواب]:اس کے جواب میں کئی باتیں ہیں :
پہلی بات :....ہم اس نقل کا ثبوت طلب کرتے ہیں ؛ اس لیے کہ ثعلبی اور ابونعیم کی روایات اس [واقعہ ]کے صحیح ہونے پر دلالت نہیں کرتیں ۔
دوسری بات:....ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ روایت صریح کذب ہے۔اس کی کوئی بھی صحیح سند ثابت نہیں ۔
تیسری بات:....یہ آیت ہر خرچ کرنے والے کے بارے میں عام ہے جو رات اور دن کو؛ اوراعلانیہ اور چپکے سے خرچ کریں ۔جو بھی اس پر عمل کرے ؛ وہ اس کے حکم میں داخل ہوگا؛ خواہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں یا پھر کوئی دوسرا ۔یہ بات ممتنع ہے کہ اس میں شخص واحد کے علاوہ کوئی دوسرا انسان داخل نہ ہوسکتا ہو۔
چوتھی بات : ....مصنف نے جودلیل ذکر کی ہے ؛ وہ آیت کے مدلول سے متناقض ہے۔اس لیے کہ آیت ان دو
|