زمانوں میں خرچ کرنے کا بیان کررہی ہے جن سے کوئی بھی وقت خالی نہیں ہوسکتا؛ اور ان دو حالتوں کا بیان کررہے ہیں کہ کوئی بھی فعل ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہوسکتا ۔کسی بھی کام کے کرنے کے لیے کوئی زمانہ ہونا چاہیے؛ اورزمانہ یاتو رات ہے ؛ اوریا پھر دن ہے ۔جب کوئی انسان رات کو خرچ کرتا ہے؛تو یقیناً وہ خفیہ طور پر خرچ کرنے والا ہے؛اور جب دن کو خرچ کرتا ہے تو اعلانیہ خرچ کرنے والا ہے؛ اس لیے کہ سراً و علانیۃ ً خرچ کرنے اور شب و روزخرچ کرنے میں تضاد نہیں پایا جاتا بلکہ جو شخص ظاہرو پوشیدہ خرچ کرتا ہے وہ شب و روز بھی خرچ کرتا ہے۔ اور جو شب و روز بھی خرچ کرتا ہے وہ سراً و علانیۃً بھی خرچ کرتا ہے۔ پس جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد ایک درہم خفیہ طور پر اور ایک درھم اعلانیہ طور پر اور ایک درھم رات کو اورایک درھم دن کو خرچ کرنا مراد ہے ؛ وہ بڑا جاہل انسان ہے۔اس لیے کہ خرچ کرنے والا کبھی رات کو بھی اعلانیہ خرچ کرسکتا ہے ‘ اور کبھی دن کو بھی چھپا کر خرچ کرسکتا ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک درہم کو دو نصف درہم میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں ۔اور ایک درہم کے دواوصاف بھی ہوسکتے ہیں ۔اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ اس سے مراد چار ہوں ۔
[یہاں سے ]
لیکن اس قسم کی باطل تفاسیر بہت سے جہلاء سے منقول ہیں ۔ جیسا کہ وہ [اس آیت کی تفسیر میں ]کہتے ہیں :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ سے مراد (أبو بکر) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے مراد (عمر) رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سے مراد(عثمان) تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا سے مراد (علِی) مراد ہیں۔
پس یہ صفات جو کہ کئی متعدد موصوفین کے لیے ہیں ؛ انہیں صرف ان چار حضرات کی صفات تک محدود کردیتے ہیں ۔ جب کہ آیت واضح طور پر دونوں قسم کی غلط تفاسیر اور نظریات پر رد کرتی ہے۔ اور آیت میں صراحت ہے کہ یہ تمام صفات ایک پوری قسم کی صفات ہیں جن میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں ۔ اور ان موصوفین کی ایک کثیر تعدادہے؛ کوئی فرد واحد نہیں ۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ چار حضرات ان باقی تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔ اور ان چاروں میں سے ہر ایک میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں ۔اگرچہ ان میں سے بعض صفات ان حضرات میں سے کسی ایک میں دوسری کی نسبت زیادہ اور نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں ۔
اور ان سے بھی زیادہ ان جاہل مفسرین کا قول ہے جو کہتے ہیں :
﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ () وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ () وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ﴾ [التِینِ: 1۔3 ]
وہ کہتے ہیں : اس سے مراد چار لوگ ہیں ؛ جب کہ یہ تفسیر عقل و نقل کے خلاف ہے۔ اس کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن تین مقامات کی قسم اٹھائی ہے جہاں پر اس نے اپنی تین کتابیں : تورات؛ انجیل اور قرآن نازل فرمائی ہیں ۔ اور ان علاقوں سے حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السلام و صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تھا۔ جیسا کہ تورات میں ہے :
’’ اللہ تعالیٰ سیناء سے آئے آ،اور ساعین میں تجلی فرمائی، اور فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہوئے۔‘‘
تین اور زیتون سے مراد وہ سر زمین ہے جہاں پر حضرت مسیح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ اکثر طور پر ایسے ہوتا ہے کہ جس
|