’’ہُمْ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُمْ۔‘‘ [1]’’وہ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔‘‘
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریین کے لیے فرمایا:’’ہُمْ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُمْ۔‘‘اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ‘‘ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ‘ ‘ ۔حضرت جُلَبیْب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’ھٰذَا مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ۔‘‘ [2]’’یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘
مندرجہ بالا بیانات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ ان الفاظ سے مدح کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ الفاظ نہ ہی امامت پر دلالت کرتے ہیں ‘ اور نہ ہی جن اصحاب کے بارے میں یہ کلمات کہے گئے ہیں وہ ان کی بنا پر دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہوسکتے ہیں ۔
فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں دلیل:حدیث غدیر خم اور حدیث سفینہ نوح
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں دسویں حدیث جوکہ جمہور علماء نے ذکر کی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے، یعنی اﷲ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی طرح ہیں کہ جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ ڈوب گیا۔‘‘
چونکہ یہ حدیث اہل بیت کے اقوال کے ساتھ تمسک کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل بیت کے سردار تھے، لہٰذا سب پر ان کی اطاعت واجب ہوگی اور وہی امام ہوں گے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
جواب: اس کے جواب کے کئی پہلو ہیں :
٭ پہلا جواب : صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث کے یہ الفاظ ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خُمّ نامی چشمہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:امابعد: ’’اے لوگو! بیشک میں بھی بشر ہوں ؛ ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا پیامبر آجائے اور میں اپنے رب کی دعوت قبول کرلوں ؛ اور بیشک میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں : ایک اللہ کی کتاب ‘ اس میں ہدایت اور نور ہے ؛ کتاب اللہ کو تھام لو‘ اور اسے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو۔‘‘ آپ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی؛ اور اس پر ابھارا ۔ پھر فرمایا :
|