Maktaba Wahhabi

94 - 764
کئی صحابہ نے مختلف لڑائیوں میں اپنی جانیں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار کی تھیں ۔ بعض شہید ہوئے اور بعض کے اعضاء تک شل ہو گئے۔ مثلاً طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ مکہ مکرمہ میں بستر پر لیٹنا جان نثاری تھی ؛ اور اس میں فضیلت کا پہلو موجود ہے تب بھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ؛ بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں آپ کے شریک ہیں ۔اس لیے کہ دوسرے کئی صحابہ کرام نے بھی کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نثاری کا حق اداکیا ہے ۔ تو پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی خطرہ ہی نہ تھاتو یہ کیسے خصوصیت ہوئی؟ سیرت ابن اسحاق میں ہے -حالانکہ ابن اسحاق کا شمار متولین علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جانب میلان رکھنے والوں میں ہوتا ہے - اس نے ہجرت کی رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھرسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر لیٹانے کا واقعہ لکھا ہے؛[وہ لکھتا ہے ] : جبرائیل امین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔ رات کے اندھیرے میں کفار آپ کے دروازے پر جمع ہو کر انتظار کرنے لگے کہ جب سو جائیں تو آپ پر حملہ کردیں ۔ ان کو کھڑے دیکھ کر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:’’ میرے بستر پر میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو جائیں کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘ [سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۲) ، مسند احمد(۱؍۳۴۸)] واقعہ ہجرت: محمد بن کعب القرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ: ’’ جب کفار مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں جمع ہوئے تو ان میں ابوجہل بھی تھا۔ اس نے کہا: محمد کہتا ہے:’’ اگر تم ان کی پیروی کرو گے تو عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے اور موت کے بعد جب دوبارہ زندہ ہو گے توتمھیں ایسے باغات ملیں گے جیسے اردن کے باغات ہیں اور اگر تم نے ان کی پیروی نہ کی تو وہ تمھیں ہلاک کر ڈالیں گے اور بعد از موت جب اٹھائے جاؤ گے تو تمھیں آگ میں جلایا جائے گا۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور مٹھی بھر مٹی ان پر دے ماری، پھر فرمایا: ہاں میں یوں ہی کہتا ہوں ۔ابوجہل کو مخاطب کرکے فرمایا: تو بھی آگ میں جلنے والوں میں سے ایک ہے۔ اﷲتعالیٰ نے کفار کی قوت بصارت سلب کرلی اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ یہ مٹی ان سب آدمیوں کے سر پر پڑی۔کوئی بھی ایسا نہیں بچا جس کے سر پر وہ مٹی نہ پڑی ہو ۔ اور وہ ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ پھر ایک شخص ان کے پاس آیا؛جوان کے ساتھ نہیں تھا؛ اس نے کہا :’’تم یہاں کس کا انتظار کر رہے ہو؟ ‘‘ انھوں نے کہا :’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا۔‘‘
Flag Counter