Maktaba Wahhabi

95 - 764
وہ کہنے لگا: ’’ اﷲ کی قسم! محمد جا چکے ہیں تم اپنے مقصد میں ناکام ہوئے۔ جاتے جاتے وہ تمہارے سروں پر خاک بھی جھونک گئے ہیں ۔‘‘کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ کفارمیں سے ہر آدمی نے اپناہاتھ اپنے سر میں ڈالا تو دیکھا کہ ان کے سر پر مٹی پڑی ہے۔ پھر وہ گھر میں ادھر ادھر جھانکنے لگے کیا دیکھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ آپ کی چادر اوڑھے سوئے ہیں ۔ وہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر تانے سو رہے ہیں ۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے؛ تو کفار نے کہا:’’ اس شخص نے سچی بات کہی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے چلے گئے ہیں ۔ تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ [الأنفال:۳۰] [سیرۃ ابن ہشام‘ ص:۲۲۱] ’’اوریادکریں جب کافر آپ کے خلاف تدابیرکر رہے تھے کہ آپ کو قید کریں یا قتل کریں یا مکہ سے نکال دیں وہ تدبیریں کر رہے تھے اور اﷲتعالیٰ بھی تدبیر کر رہاتھا اور اﷲ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی : ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ﴾ [الطور ۳۰] ’’یا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس پر ہم زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں ۔‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہیں تھی۔‘‘ مذکورہ صدر روایت سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا کہ: ’’ میرے بستر پر میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو جائیں کفار آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘ بنا بریں حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کی روشنی میں ہر طرح سے مسرور و مطمئن تھے۔ چوتھی بات:....خود اس روایت میں اس کے جھوٹ ہونے کے وہ دلائل موجود ہیں جو کسی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ ملائکہ کے بارے میں ایسی باطل باتیں نہیں کہی جاسکتیں جو ان کی شایان شان نہ ہوں ۔ان میں سے کوئی ایک بھوکا نہیں تھا کہ دوسرے کو کھانے میں ترجیح دیتا۔اور نہ ہی ان کے لیے کوئی خوف تھا کہ امن والا خوف والے کوترجیح دیتا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا : تم میں سے کون ہے جو اپنے ساتھی کی زندگی کوترجیح دے؟ نیز فرشتوں کے مابین اصل میں کوئی مواخات نہیں ۔ بلکہ جبریل کی اپنی خاص ذمہ داری ہے ؛ میکائیل کی اپنی خاص ذمہ داری ہے جو جبریل کی نہیں ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آتا ہے ؛کہ وحی لیکر آنا اور مدد لیکر نازل ہونا جبریل امین کی ذمہ داری ہے۔ اور روزی اور بارش پہنچانا میکائیل کی ذمہ داری ہے۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کرہی دیا تھا کہ ان میں سے ایک کی عمر دوسرے کی نسبت زیادہ ہوگی؛ توپھر ویسے ہی ہونا تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیاتھا۔پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فیصلہ بھی ہوگیا تھا؛ اور اب مشیت الٰہی یہ تھی کہ
Flag Counter