دونوں کا لمبی عمر پر اتفاق ہوجائے ؛ یا ایک اپنی عمر کا کچھ حصہ دوسرے کو دیدے اور دونوں اس پر راضی بھی ہوں توپھر اس میں کسی کلام کی کوئی گنجائش باقی نہیں ۔ اور اگر وہ اس پر راضی نہیں تھے ‘ بلکہ اس کوناپسند کرتے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کے لیے کیسے یہ مناسب ہوسکتا ہے کہ وہ فرشتوں کے مابین بغض و عداوت ڈالے۔- یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اس بات کو سچ تسلیم کر لیا جائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ایسی بودی اوربیہودہ باتوں سے بہت بلند و بالا اور منزہ ومبرا ہے - ۔
پھر اگر اس بات کو - بطور مناظرہ - باطل ہونے کے باوجود صحیح بھی مان لیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کی تخلیق آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے ہوئی ہے ؛ اس وقت سے لیکر ہجرت کے بعد تک اس معاملہ میں تاخیر کیوں کی گئی ؟ اگر واقعی کچھ ایسا ہی تھا تو پھر ان فرشتوں کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے بارے میں فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا۔
پانچویں بات:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے مواخات کی روایت بھی صحیح نہیں اور نہ ہی آپ نے کسی دوسرے سے کوئی مواخات قائم کی۔اس بابت جوکچھ روایت کیا جاتا ہے ؛ وہ سب جھوٹ اور دروغ گوئی ہے۔ حدیث مواخات جو اس بارے میں روایت کی جاتی ہے ؛ اس میں ضعف و بطلان کے باوجود واضح ہے کہ مواخات مدینہ طیبہ میں ہوئی تھی۔ امام ترمذی نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ جبکہ مکہ میں مواخات کی روایت ہر دو لحاظ سے باطل ہے۔ لیکن یہ بھی اس روایت میں کہیں بھی جانثاری ؛ یا اپنی زندگی پر ترجیح دینے کا کوئی ذکر نہیں ۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
چھٹی بات:....جبریل و میکائیل دو فرشتوں کا ایک انسان کی حفاظت کے لیے نازل ہوناسب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی مخلوق میں سے کسی کی حفاظت اس کے بغیر بھی کرسکتا ہے ۔ ان فرشتوں کا بدر کے دن جنگ کرنے کے لیے اور اس طرح کے بڑے او راہم ترین امور میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اگر انہوں نے کسی ایک آدمی کی حفاظت کے لیے نازل ہونا تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے نازل ہوتے ؛ جن کی تلاش میں ہر طرف سے کفار امڈ پڑے تھے اور ان دونوں حضرات یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر انہوں نے انعام بھی مقرر کر رکھے تھے۔اور یہی دو حضرات کفار پر سخت گراں بھی تھے۔
ساتویں بات: ....علاوہ ازیں یہ آیت ﴿مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہٗ﴾ سورۂ بقرہ میں ہے جو بالاتفاق مدنی سورت ہے۔سورت بقرہ ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی۔ہجرت تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اور مشرکوں نے آپ کو پکڑنا چاہا تو آپ نے اپنا مال ان کو دے دیا اور خود مدینہ پہنچ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ کر فرمایا:
’’ ابو یحییٰ! یہ سودا سود مند ہے۔‘‘ ( یہ واقعہ متعدد تفاسیر میں مذکور ہے) [1]
|