حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بھی بہت ساری روایات جھوٹی ہیں ۔ لیکن جتنے بھی بدعتی اور ہویٰ پرست گروہ ہیں ؛ ان میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا کوئی نہیں ہے۔ بخلاف دوسرے لوگوں کے؛ بلاشبہ خوارج بہت کم جھوٹ بولتے ہیں ؛ بلکہ وہ اپنی بدعت اور گمراہی کے باوجود لوگوں میں سب سے سچے شمار ہوتے ہیں ۔
اہل علم اور اہل دین لوگ کسی روایت کی تصدیق یا تکذیب صرف اس بنا پر نہیں کرتے کہ وہ ان کے عقیدہ کے موافق ہے۔ بلکہ کبھی کوئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس امت کے فضائل میں بہت ساری احادیث نقل کرتا ہے تو انہیں صرف اس وجہ سے رد کردیتے ہیں کہ وہ ان کا جھوٹ ہونا جانتے ہیں ۔ او ربہت ساری احادیث کو ان کے صحیح ہونے کی وجہ سے قبول کرلیتے ہیں ۔اگرچہ ان کا ظاہر ان کے عقیدہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ یاتو ان کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں ؛ یا پھر ان کی کوئی ایسی تفسیر ہے جس کی مخالفت وہ نہیں کرتے ۔
منقولات میں اصل یہ ہے کہ ائمہ نقل اور اس فن کے علماء کی طرف رجوع کیا جائے۔ اور جو کوئی ان کیساتھ اس علم میں شریک ہوتا ہے ؛ وہ بھی ان کے علوم سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ اوریہ ضروری ہے کہ کسی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے پر علیحدہ سے تفصیل ہونی چاہیے ؛ وگرنہ صرف کسی کے اتنا کہہ دینے سے کہ ’’ فلاں نے اسے روایت کیا ہے ‘‘ قابل حجت نہیں ہوسکتا ؛ نہ ہی اہل سنت کے ہاں اور نہ ہی اہل شیعہ کے ہاں ۔ اور مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہر مصنف کی ہر روایت سے استدلال کرنے لگ جائے؛ پس ہر وہ حدیث جسے بطور حجت پیش کیا جائے ہم سب سے پہلے اس کی صحت کا مطالبہ کریں گے۔
اہل علم کا اتفاق ہے کہ صرف کسی روایت کو ثعلبی کی طرف منسوب کردینے سے اس کی صحت ثابت نہیں ہوجاتی۔یہی وجہ ہے کہ وہ علماء حدیث جو مرجع سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی۔نہ ہی صحاح و سنن میں نہ ہی مسانیدو معاجم میں ؛ اور نہ ہی کسی دوسری معتبر کتاب میں ۔ اس لیے کہ ایسی روایات کا جھوٹ ہونا کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔
[بے بنیاد روایات]:
ایسی روایات اہل علم کے ہاں گمان کے درجہ میں ہوتی ہیں ۔ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت باتفاق محدثین جھوٹی ہے اور حدیث کی کسی قابل اعتماد کتاب میں مندرج نہیں ۔ اس حدیث کی صحت کا دعویٰ وہی شخص کرتا ہے جو اس حد تک جھوٹا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کا پیرو خیال کرتا ہے اور اس بات کا دعویٰ دار ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ یا جس طرح ترکوں کاایک گروہ کہتا ہے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بہت سی لڑائیاں لڑی تھیں اور وہ ان لڑائیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں ، حالانکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر میں شرکت کی تھی اور غزوہ احد میں شہادت سے مشرف ہوئے۔ یا جس طرح بہت سے عوام یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ور اویس قرنی دمشق میں مدفون ہیں ۔اہل علم یہ بات اچھی
|