Maktaba Wahhabi

40 - 764
طرح سے جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کوئی ایک بھی دمشق تشریف نہیں لے گئی۔لیکن شام میں حضرت اسماء بنت یزید بن السکن الانصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں ؛ اہل شام انہیں ام سلمہ کہا کرتے تھے۔ اس سے جاہل لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ ام سلمہ ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا انتقال مدینہ طیبہ میں ہوا۔ اویس قرنی تابعی شام گئے ہی نہیں ۔ [ یا عوام کا یہ نظریہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جامع دمشق کے باب القبہ میں احادیث روایت کیا کرتی تھیں ]۔ اسی طرح یہ افواہ بھی بے بنیاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نجف میں مدفون ہیں ، حالانکہ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کواپنے اپنے شہر میں قصر الامارت میں دفن کیا گیا تھا کیونکہ اس بات کا خطرہ دامن گیر تھا کہ خوارج ان کی قبریں نہ کھود ڈالیں ۔ [1] اس لیے کہ خوارج نے ان تینوں حضرات کو قتل کرنے کرنے کے لیے قسمیں اٹھالی تھیں ۔پس اس کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا؛ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ۔جبکہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے خارجہ نامی ایک آدمی کو مقرر کیا تھا؛ جب قاتل نے حملہ کردیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عمرو بن العاص نہیں ‘ بلکہ خارجہ ہے ؛ تواس نے کہا : ’’میں تو عمرو کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ خارجہ کا تھا۔‘‘ یہ بات لوگوں میں ضرب المثل بن گئی۔ اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں جو جہلاء کے خیالات پر مبنی ہیں ۔اور منقولات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ
Flag Counter