ان روایات کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
دوسری وجہ :....ہم کہتے ہیں کہ : بذات خود اس روایت میں ایسی باتیں موجود ہیں جوکئی لحاظ سے اس کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر کے موقع پر موجود تھے ؛آپ نے لوگوں میں منادی کروائی؛ جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ تفسیر ثعلبی میں ہے:’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ کے روز صحابہ کو پکارا جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘
چنانچہ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہو گئی۔ جب حارث بن نعمان فہری رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد مبارک سنا تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ پہنچا۔ اپنااونٹ وادی میں بٹھایااور اس کو باندھ دیا؛پھروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا:
’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں دو شہادتوں کا حکم دیا؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ نہیں ہمیں پانچ نمازوں کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی،پھر آپ نے ہمیں اپنے اموال سے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی؛ اور آپ نے ہمیں حکم دیاکہ ماہ رمضان کے روزے رکھیں ؛ہم نے آپ کی بات مان لی؛آپ نے ہمیں بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے ۔اب آپ نے اپنے چچا زاد بھائی علی کا سر اونچا کردیا اور اس کو ہم پر فوقیت بخشی ہے،اور آپ نے فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘ کیا آپ اپنی طرف سے یہ کہہ رہے ہیں یا اﷲکے حکم سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اﷲکی قسم! یہ اﷲکا حکم ہے۔‘‘ چنانچہ حارث یہ کہتے ہوئے اپنی سواری کی طرف رخصت ہو گیا کہ:’’اے اللہ! اگر یہ بات تیری جانب سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہمیں درد ناک عذاب میں مبتلاکر۔‘‘
ابھی وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچا تھا کہ ایک پتھر اس کے سر پر گر ااور دُبر سے نکل گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔تب یہ آیت اتری:[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:
﴿سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ oلِّلْکٰفِرینَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ oمِّنَ اللّٰہِ﴾ [المعارج۱۔۳]
’’ ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں ۔اللہ کی طرف سے ۔‘‘نقاش نے بھی اپنی تفسیر میں یہ روایت بیان کی ہے۔
جواب :ان کذابین سے کہا جائے گا کہ: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ’’ غدیر خُمّ‘‘ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے؛ وہ حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت کہے تھے۔ شیعہ اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کی دلیل شیعہ کا یہ عمل ہے کہ وہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے بعد پھر کبھی مکہ تشریف نہ
|