کوئی مال نہیں تھا جسے خرچ کرکے یہ مقام حاصل کرتے ۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَ اَسْأَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا﴾ (الزخرف۴۵)
’’اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو!جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا ۔‘‘
ابن عبدالبر و ابو نعیم نے روایت کیا ہے کہ شب معراج میں اﷲتعالیٰ نے سب انبیاء علیہم السلام کو جمع کر کے فرمایا: اے محمد! ان سے پوچھیں کہ تمہاری بعثت کس بات پر عمل میں آئی تھی؟ انھوں نے کہا:’’ اس بات کی شہادت پر کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں نیز آپ سچے نبی ہیں اور علی آپ کے امام و خلیفہ ہیں ۔‘‘
اس روایت سے صراحۃً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا اثبات ہوتا ہے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ:....ہم رافضی سے اس روایت اور اس جیسی دیگر روایات کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔جب ہم کہتے ہیں :بلاشبہ یہ روایت اور اس کے نظائر و امثال سب کذب ہیں ۔تو ہمیں اس بات میں کوئی ادنی سا شک و شبہ نہیں کہ یہ روایات انتہائی قبیح قسم کا جھوٹ ہیں ۔لیکن ہم بطور مناظرہ کہتے ہیں کہ :اگر یہ روایت کذب نہ بھی ہوتی؛ تب بھی اثبات صحت سے قبل استدلال کرنا ناروا تھا۔کیونکہ جس روایت کی صحت کا علم نہ ہو اس سے استدلال کرنا بالکل جائز نہیں ہے ‘اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔کیونکہ اس کا قول بغیر علم کے ہے ؛ اور بغیر علم کے بات کہنا کتاب و سنت اوراجماع کی روشنی میں حرام ہے۔
دوسری وجہ:....ایسی روایات کے موضوع اور من گھڑت ہونے پر تمام اہل علم کااتفاق ہے ۔
تیسری وجہ:....اہل علم و عقل جانتے ہیں کہ یہ روایات ایسا باطل جھوٹ ہیں جن کی تصدیق صرف وہی انسان کرسکتا ہے جسے نہ ہی عقل ہو اور نہ ہی دین۔ بلکہ اس کا کام ہی ایسی روایات گھڑنا اور بیباکی سے جھوٹ بولنا ہو۔ سخت حیرت تویہ ہے کہ جو چیز اصل ایمان میں داخل نہیں اس کے بارے میں انبیاء سے کیوں کر پوچھا جائے گا ؟
اس بات پرمسلمانوں کااجماع ہے کہ اگر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا اور آپ کی اطاعت کرتا ہو؛ وہ مر جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اﷲتعالیٰ نے ابوبکر وعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کو پیدا کیا تھا تو عدم علم سے اسکے ایمان کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا؛اور نہ ہی یہ بات اس کے جنت میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔اگریہ حال امت کا ہے توپھریہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ صحابہ میں سے ایک ( حضرت علی) پر ایمان لانا انبیاء کے لیے ناگزیر ہے۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ نے ان سے صرف یہ عہد لیا تھا کہ اگر انکی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو کر آجائیں تو ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ہو گی؛اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ
|