راز دارانہ بات کرنا چاہتے ہوں ۔ اور جو ایسی کوئی بات نہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے صدقہ کرنا ضروری نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ نے کچھ انصار کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے:
﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾(حشر:۵۹)
’’وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ:
’’ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اور بھوک اور تنگی کی شکایت کی۔ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کے پاس آدمی بھیجا؛ مگر جواب ملا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! گھر میں ہمارے پاس پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔‘‘
پھر دوسری کے پاس آدمی بھیجا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ حتی کہ تمام ازواج مطہرات سے یہی جواب ملا کہ: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! گھر میں ہمارے پاس پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔‘‘
آپ نے اعلان فرمایا: ’’ آج رات جو اس کی ضیافت کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائیں گے۔‘‘
یہ سن کر ایک انصاری اٹھ کرعرض گزار ہوا: اے اللہ کے رسول!اس خدمت کے لیے میں حاضر ہوں ۔‘‘
وہ اس مہمان کو لیکر اپنے گھر چلا گیا۔ اور اپنی بیوی سے کہا: کیا گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ تو اس نے جواب دیا :گھر میں صرف بچوں کے لیے کھانا ہے۔ اس نے کہا: بچوں کو بھلا پھسلا کر سلادو۔ اور جب مہمان گھر میں داخل ہوجائے تو چراغ گل کر دو ؛ [اور جو کچھ ہے مہمان کو پیش کردو]اور اس کو یوں باور کراؤ کہ ہم اس کے ساتھ کھا رہے ہیں ۔پس جب مہمان کھانے کی طرف جھکا تو اس نے چراغ گل کردیا۔اور خود بیٹھ گئے۔مہمان نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔جب صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کو آج رات آپ کا آپ کے مہمان کے ساتھ یہ سلوک بہت بھلا لگا ہے ۔‘‘ ایک روایت میں ہے: تب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾(حشر:۵۹) [1]
’’وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
[یہ سرگوشی کی نسبت بہت بڑا کام ہے]۔
خلاصہ کلام ! انفاق فی سبیل اللہ ؛ اوردوسرے ابواب میں بہت سارے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ایسے فضائل ثابت ہیں جوکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں نہیں آئے۔اس لیے کہ عہد رسالت مآب میں آپ کے پاس
|