ایسے ہی واحدی کا حال بھی ہے؛وہ ثعلبی کا شاگرد ہے۔ اور بغوی نے اپنی تفسیر ثعلبی اورواحدی کی تفاسیر سے مختصر کی ہے ۔یہ دونوں حضرات بغوی رحمہ اللہ کی نسبت اقوال مفسرین کے زیادہ ماہر ہیں ۔ واحدی عربی زبان کا ان دونوں سے بڑا ماہر ہے۔اوربغوی رحمہ اللہ کے ہاں ان دونوں کی نسبت سنت کی اتباع زیادہ پائی جاتی ہے۔
لیکن کسی انسان ؍عالم کا ان جمہور میں سے ہونا جو خلفائے ثلاثہ کی خلافت کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ واجب نہیں کرتا کہ جو بات بھی وہ روایت کرتا ہے ؛ وہ صرف سچ ہی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ کسی کے شیعہ ہونے سے یہ واجب نہیں ہوجاتا کہ اس نے جو بھی روایت کیا ہے؛ وہ سب جھوٹ ہے۔ بلکہ اس کے لیے اعتبار میزان عدل ہے۔
لوگوں نے اصول و احکام ؛اور زہد و فضائل میں بہت ساری احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹی گھڑ رکھی ہیں ۔ اور بہت ساری احادیث خلفائے اربعہ اور حضرت امیر معاویہ ۔رضی اللہ عنہم ۔کے فضائل میں اپنی طرف سے گھڑ رکھی ہیں ۔
بعض لوگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس باب میں جو کچھ بھی اس میں سے صحیح اور ضعیف کا فرق کیے بغیر روایت کر لیا جائے ۔جیسا کہ فضائل خلفاء میں ابو نعیم نے کیاہے۔ اور یہی حال ان دوسرے مصنفین کا بھی ہے جنہوں نے فضائل میں کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ مثال کے طور پر جو کچھ ابو الفتح بن ابو الفوارس نے اور ابو علی الاہوازی نے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں جمع کر رکھا ہے۔ اور جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں جمع کیا ہے؛ اور ایسی ہی ابو القاسم ابن عساکر نے جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردیگر حضرات کے فضائل میں جمع کیا ہے۔ ان حضرات کا مقصد یہ تھا کہ جوکچھ انہوں نے سنا ہے ؛ اس سب کو نقل کردیا جائے قطع نظر اس بات کے کہ اس میں سے کیا صحیح ہے اور کیا ضعیف ۔ پس ان حضرات میں سے کسی ایک کے روایت نقل کرنے کی وجہ اس کے سچا ہونے کی تصدیق کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ؛ اس پر تمام اہل حضرات کا اتفاق ہے۔
جو کوئی مصنفین اصول یا فقہ میں یا زہد و رقائق میں میں بغیر سند کے حدیث ذکر کرتے ہیں ؛تو یہ حضرات ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دوسری کئی ایسی احادیث بیان نہیں کرتے جو کہ صحیح سند سے ثابت ہیں ۔ اور ان میں سے بہت سارے حضرات ضعیف اور موضوع روایات تک نقل کرتے ہیں ۔ جیسا کہ رقائق اور رائے کے علاوہ دوسری کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث]
[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں دوسری حدیث یہ ہے کہ جب آیت کریمہ ﴿ یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾ (المائدہ:۶۷) ’’اے رسول جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ‘ اسے آگے پہنچادیجیے ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے مجمع عام میں اعلان فرمایا:’’ اے لوگو! کیا میں تمھیں تمہاری جانوں کی نسبت زیادہ قریب نہیں ؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں [ضرور آپ ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں ] آپ نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ
|