اسے امام احمد نے یحی بن سعید ؛ انہوں نے قتادہ سے ؛ اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ احد کے پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ [مسند ۳؍۱۱۲]
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم پر سچ بولنا واجب ہے۔ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اور انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچا لکھ دیا جاتا ہے۔اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ؛بیشک جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ [1]
چوتھی بات: ....اﷲتعالیٰ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بھی صدیقہ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صدیق صرف تین ہی ہیں ؟
پانچویں بات: ....قائل کا یہ کہنا کہ : ’’صدیق صرف تین ہیں ‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی صدیق نہیں تو پھر یہ سراسر جھوٹ اور کتاب و سنت اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ اور اس اگر سے مراد یہ ہو کہ اپنی صدیقیت میں یہ تین لوگ کامل تھے ؛ تب بھی یہ خطاء ہے۔اس لیے کہ ہماری امت سب امتوں میں سے بہترین امت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے پیدا کیا ہے؛ توپھر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہماالسلام کی تصدیق کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والوں سے افضل کیوں کر ہوسکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے مؤمن کو صدیق نہیں کہا؛ اور نہ ہی آل یاسین کے فرد کوصدیق کہا ہے ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کی تھی۔لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے ان سے زیادہ افضل ہیں ۔
قرآن کریم میں بعض انبیاء کو بھی صدیق کہا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں فرمایا:
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾ (مریم:۴۱)
’’ اس کتاب میں ابراہیم( علیہ السلام )کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔‘‘
[اور حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:]
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ﴾ (مریم:۵۶)
’’ اور اس کتاب میں ادریس( علیہ السلام )کا بھی ذکر کر، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھے۔‘‘
[اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:]
﴿یُوْسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ ﴾ [یوسف ۴۶] ’’یوسف!اے دوست ۔‘‘
|