ہیں ۔ اور سنن ابی داؤد کی احادیث سے زیادہ عمدہ ہیں ۔ جب کہ ’’ الفضائل‘‘ میں جمع کردہ احادیث کامعاملہ ایسے نہیں ہے۔
محدث کے ہاں کبھی حدیث میں غلطی ثابت ہوتی ہے ؛ یا راوی کے علم کے بغیر دوسرے دلائل کی وجہ سے اس حدیث میں جھوٹ کے آثار کا پتہ چل جاتاہے۔
اہل کوفہ کے ہاں سچ اور جھوٹ آپس میں مل گیا تھا۔ متاخرین پر بسا اوقات ان میں سے کسی ایک کی غلطی یا اس کا جھوٹ مخفی رہ جاتا ہے۔لیکن کسی دوسری دلیل سے اس کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ روایت امام احمد نے اپنی ’’المسند‘‘ میں ذکر کی ہے نہ ’’ الفضائل‘‘ میں ۔بلکہ القطیعی نے محمد بن یونس القرشی سے روایت کرتے ہوئے اس کا اضافہ کیا ہے ؛ وہ عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اور پھر مذکورہ حدیث بیان کی ۔
القطیعی نے اسے ایک دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : ہماری طرف عبد اﷲ بن غنام کوفی نے لکھا کہ ہم نے حسن بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نابینا سے سنا ؛ اس نے کہا ہے : اس نے عمرو بن جمیع سے سنا؛ وہ کہتا ہے: ہم سے محمد بن ابی لیلی نے عیسیٰ سے نقل کیا ہے؛ اور پھر حدیث بیان کی۔
عمرو بن جمیع ناقابل اعتماد انسان ہے ؛ اس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ محدث ابن عدی رحمہ اللہ عمرو بن جمیع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ وضاع ہے[اپنی طرف سے روایات گھڑتا رہتا ہے ]۔
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انتہائی خبیث اور جھوٹا ہے۔
امام نسائی اور دار قطنی رحمہم اللہ فرماتے ہیں : متروک الحدیث ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جھوٹی روایات کو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایت کرتا ہے۔ اور منکر احادیث کو مشہور لوگوں کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ اس کی روایت کو لکھنا حلال نہیں ہے ؛ صرف عبرت کے لیے لکھاجائے تو ٹھیک ہے۔
دوسری بات :....یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہے۔
تیسری بات:....علاوہ ازیں صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کچھ اور لوگ بھی صدیق کے لقب سے ملقب تھے‘ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کہا جاتا تھا؛ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صدیق صرف تین ہیں ؟
بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہ احد پر چڑھے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ پہاڑ کا نپا تو آپ نے فرمایا :
’’احد (کے پہاڑ) ٹھہر! تجھ پر تو صرف ایک نبی ہے ایک صدیق اور دو شہید۔‘‘ [1]
|