ایک روایت میں ہے حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ایک سریہ پر امیر تھے۔تو آپ کو امیر المؤمنین کہہ کر پکارا گیا۔ لیکن آپ کی یہ امارت اس سریہ کے ساتھ خاص تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے کسی کو بھی مسلمانوں کی امارت کی وجہ سے امیر المؤمنین کہہ کر نہیں پکارا گیا۔اورحقیقت میں آپ ہی اس نام کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔
وَلایت عداوت کی ضدہے۔بیشک اللہ تعالیٰ نیک اہل ایمان سے دوستی رکھتاہے۔اہل ایمان اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے ۔ وہ ان سے راضی ہوتا ہے ؛ یہ اس سے راضی ہوتے ہیں ۔اور جو اللہ کے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے گویا وہ اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کرتا ہے۔یہ ولایت اس کی رحمت اور احسان ہے۔یہ مخلوق کی آپس میں ولایت اور دوستی کی طرح نہیں ہے جو کسی ضرورت پر مبنی ہوتی ہے۔ فرما ن الٰہی ہے:
﴿وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ ﴾ [الإسراء۱۱۱]
’’ اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو ۔‘‘
پس ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو؛ بلکہ اللہ تعالیٰ توخود یہ فرماتے ہیں :
﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ﴾ [فاطر۱۰]
’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ۔‘‘
بخلاف بادشاہوں کے؛ بادشاہ جن لوگوں سے دوستی کرتے ہیں ‘ وہ اپنی ضرورت کے لیے ان سے دوستی کرتے ہیں ۔ [اس لیے کہ وہ اس طرح سے اپنے مددگار پیدا کرتے ہیں ] ورنہ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔
انیسویں وجہ:....جس پر بھی کوئی عادل امام حاکم بن جائے اس کے لیے لازمی نہیں ہے کہ اللہ کی جماعت میں سے ہو ‘ اور ہمیشہ غالب ہی رہے۔بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عادل حکمران کفار اور منافقین پر بھی حکومت کرتے ہیں ۔مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت منافق اورذمی بھی رہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکمرانی میں کفار بھی تھے اور منافقین بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ [المائدۃ ۵۶]
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔‘‘
اگر یہاں پر مرادامارت یا حکومت ہوتی تو پھر معنی یہ ہوتا کہ جو کوئی بھی اہل ایمان پر والی بن جائے ؛ وہ اللہ کی غالب آنے والی جماعت میں سے ہوگا۔ ایسا نہیں ہے ۔اس لیے کہ کفار اور منافقین اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضاء و قدر کے ماتحت ہیں ‘حالانکہ اللہ تعالیٰ کفار سے دوستی نہیں کرتا ؛ بلکہ ان سے نفرت کرتا ہے۔
|