فرق نہیں کر پاتے ۔ چنانچہ امیر کو والی کہتے ہیں اور ولی نہیں کہتے۔ہاں اسے ولی الامر کہا جاتا ہے۔جیسے کہا جاتا ہے: (ولیت أمرکم) یعنی تمہارے امور کی زمام کار مجھے سونپی گئی ہے۔
جب کہ والی کے ارادہ سے مولی کا لفظ بولنا بھی اہل عرب کے ہاں معروف نہیں ہے ۔ [وہ اس لفظ کو ان معانی میں استعمال کرنا جانتے ہی نہیں ]۔بلکہ ولی کو مولی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے والی کے معنی میں نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ جب والی اور ولی دونوں جنازہ میں موجود ہوں تو جنازہ کون پڑھائے ،بعض نے کہا ہے کہ والی کو مقدم کیا جائے گا؛یہ اکثر علماء کا قول ہے۔اور بعض کہتے ہیں : ولی کو مقدم کیا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ موالات معادات کی ضد ہے۔یہ وَلایت تمام اہل ایمان کے مابین ثابت ہے۔یہ وصف خلفاء اربعہ ؛ تمام اہل بدر اور اہل بیعت رضوان کے مابین بھی ثابت ہے۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کا ولی اور دوست ہے۔اس آیت میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر امیر ہے۔بلکہ یہ نظریہ کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔
اگر شیعہ مصنف کی اس ولایت سے مراد امارت ہو؛ تو اسے یوں کہنا چاہیے تھا: بیشک تم پر اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان متولی ہیں ۔اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متولی کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ کیونکہ عربی زبان میں دوست کے لیے ولی اور حاکم کے لیے متولی یا والی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ لفظ ولی اور ولایت میں اور والی میں بہت بڑا فرق ہے۔یہ آیت تمام مؤمنین کے لیے عام ہے جب کہ امارت تمام لوگوں کے لیے عام نہیں ہوسکتی۔
سترھویں وجہ:....اگر اس ولایت سے مراد امارت ہوتی تویوں کہا جاتا:’’ بیشک تم پر اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان متولی ہیں ۔اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متولی کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔اس لیے کہ جس کو امیر بنایا جاتا ہے اس کے لیے والی کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ عربی زبان میں دوست کے ولی اور حاکم کے لیے متولی یا والی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اٹھارھویں وجہ: ....اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے بندوں پر متولی ہے ۔یا وہ ان کا امیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا خالق و مالک اور رازق ہے؛ ان کا رب اور بادشاہ ہے۔تمام خلقت اسی کی ہے ؛ اور حکم اس کا چلتا ہے۔ ایسے نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین ہے؛جیسا کہ متولی کو کہا جاتا ہے۔مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ لوگوں پر متولی ہیں ۔یا آپ ان کے امیر ہیں ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام امیر المؤمنین نہیں کہتے تھے؛ بلکہ آپ خلیفہ ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ سب سے پہلے جن کے لیے امیر المؤمنین کا لفظ استعمال کیا گیا وہ حضرت امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔
|