Maktaba Wahhabi

78 - 764
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تھا؛ تو پھرمدینہ طیبہ میں ازواج مطہرات کے گھروں کے علاوہ کسی بھی نبی کا کوئی گھر نہیں تھا۔ تو ان گھروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر داخل نہ ہوا۔اور اگر اس سے مراد وہ گھر ہوں جن میں انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کوئی ایک داخل ہوا ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سارے صحابہ کرام کے گھروں میں داخل ہوئے ہیں ۔ جو بھی بات مان لی جائے ؛ کسی بھی صورت میں حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے گھروں کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کی کوئی فضیلت و خصوصیت ثابت نہیں ہوتی ۔ جب آپ کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی تو پھر مردوں کے مابین بہت سارے امور مشترک ہوتے ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ آٹھویں وجہ :....اس شیعہ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : وہ مرد جن کی صفت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے : ﴿رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ [النور۳۶] ’’ایسے لوگ جنہیں تجارت اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل نہیں کرتی ۔‘‘ اس آیت سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مرددوسرے لوگوں سے افضل ہیں ۔اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا وعدہ بھی نہیں کیا ؛ بلکہ ان کے اس فعل پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جس کسی کی بھی کوئی تعریف کی جائے یا اسے جنت کی خوشخبری سنائی جائے تووہ دوسروں سے افضل ہوجائے گا۔ اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ انسان انبیائے کرام علیہم السلام سے بھی افضل ہو۔ نویں وجہ :....تصور کیجیے اس آیت سے ان لوگوں پر فضیلت ثابت ہوتی ہے جو ان صفات سے موصوف نہیں ہیں ؛ تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے ؟ بلکہ ہر وہ انسان جسے تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی؛ اور وہ آخرت کے دن کا بھی خوف رکھتا ہے؛ تووہ اس صفت سے موصوف ہے۔آپ پھر یہ کیونکر کہتے ہیں کہ : یہ صفت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے ؟ جب کہ آیت کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ وہ بہت سارے لوگ ہیں ؛صرف کوئی ایک مرد نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت کریمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ آپ او ردوسرے لوگ اس صفت میں مشترک ہیں ۔ پس اس بنیاد پر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اپنے مشارکین سے افضل ہوں۔ دسویں وجہ :....اگر تسلیم کر لیا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اس صفت میں باقی لوگوں سے افضل ہیں ۔ توپھر بھی اس سے امامت کا وجوب کہاں سے لازم آگیا؟ جب کہ مفضول کو فاضل پر مقدم کرنے کے امتناع کے مسئلہ کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بیشک ایسا ان مجموعی صفات میں ہوتا ہے جو کہ امامت کے لیے مناسب ہوتی ہیں ۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ انسان جسے خیر کی کسی ایک خصلت میں دوسروں پر فضیلت حاصل ہو تو وہ امامت کا مستحق ہوجائے گا۔ اگر ایسا جائزہو تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت زیادہ کفار کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے
Flag Counter