Maktaba Wahhabi

452 - 764
مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ ایسے ہی غطفان اور ان کے تابعین بھی اہل نجد بھی چڑھ آئے تھے ؛ مدینہ کی بالائی اورزریں جانب سے دشمن امڈ پڑے تھے بالکل جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کانقشہ کھینچا ہے : ﴿اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُم﴾ ’’جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آ گئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے اور خندق کو اپنے اور کفار کے درمیان حائل کردیا۔مشرکین نے یہود کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔یہودیوں سے معاہدہ اور کفار کی کثرت کے پیش نظر ان لوگوں کی طمع اوربڑھ گئی۔ کفار میں سے عمر و بن عبدوُدّ اور عکرمہ بن ابی جہل نے خندق کے ایک تنگ شگاف میں سے داخل ہو کر مقابلہ کے لیے للکارا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ عمرو ہے‘‘ علی رضی اللہ عنہ چپ رہے۔ پھر عمر و نے دوسری اور تیسری مرتبہ للکارا۔جب ہر بار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے تو چوتھی بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی۔جب عمرو بن عبد ود سے سامنا ہوا تو اس نے کہا:’’ اے میرے بھتیجے ! تم واپس چلے جاؤ میں تمہارے خون سے اپنی تلوار کو رنگین نہیں کرنا چاہتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ جب میں مشرکین سے ٹکراؤوں گاتو قریش میں سے جو بھی انسان دو میں سے ایک بات قبول کرلے گا؛ میں اس کی وہ بات مان لوں گا۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔عمرو نے کہا: ’’ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘پھر آپ نے فرمایا : میں تمہیں مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں ۔‘‘ عمرو نے کہا: میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ لیکن میں تو تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں ۔اس پر عمرو کو تپ چڑھ گئی [یعنی وہ گرم ہوگیااورغصہ میں آگیا]۔ اس نے گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگائی اور داؤ کھیلنے لگا۔ آخر کار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمر و کو قتل کردیا ؛ اور عکرمہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا۔پھر باقی مشرکین اوریہود بھی شکست کھا کر بھاگ گئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’علی رضی اللہ عنہ کا عمر وبن عبد ود کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘[شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا] [جواب]:ہم کہتے ہیں :پہلی بات : اس واقعہ کی سند اور صحت کہاں ہے؟ ٭ دوسری بات: اس نے غزوہ کے واقعہ میں چند در چند جھوٹ جمع کردیے ہیں ۔پہلا جھوٹ کہ : قریش وکنانہ اور اہل تہامہ دس ہزار کی تعداد میں تھے۔ جب کہ احزاب کی تمام جماعتیں :قریش ‘کنانہ ‘ اہل نجد‘تمیم ‘ اسد ‘ غطفان‘ اور یہود سب ملاکر دس ہزار کے قریب تھے۔ ٭ احزاب تین قسم کے لوگ تھے: ۱۔ قریش اوران کے حلیف۔ یہ اہل مکہ اور اس کے گرد و نواح کی بستیوں کے لوگ تھے۔ ۲۔ اہل نجد : تمیم ‘ غطفان ‘اور ان کے ساتھ شامل باقی کے لوگ ۳۔ یہود بنی قریظہ ۔
Flag Counter