Maktaba Wahhabi

103 - 764
میں ان سے افضل ہوتا ؛ تو آپ اس کو بھی مباہلہ میں شریک کرلیتے۔کیونکہ یہ ضرورت کا وقت تھا۔‘‘ [جواب]:یہاں پر اجابت دعا مقصود نہ تھی۔ ورنہ اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہی اس مقصد کے لیے کافی ہوتی۔اگر ان لوگوں کو ساتھ لینے سے مراد استجابت دعا ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام اہل ایمان کو ساتھ بلا لیتے ؛ اور ان کے ساتھ مل کر دعا کرتے ۔جیسا کہ نماز استسقاء کے لیے انہیں ساتھ لیکر دعا فرمایا کرتے تھے۔ اور پھر فقراء مہاجرین سے فتح کی دعا کروایا کرتے تھے اور ارشادفرمایا کرتے تھے: ’’کیا تم مدد کیے جاتے ہو اور روزی دیئے جاتے ہو مگر تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے ؛ ان کی دعاؤں ‘ ان کی نمازوں او ر ان کے اخلاص کی وجہ سے ۔‘‘ یہ بات سب کو پتہ تھی کہ یہ لوگ مستجاب الدعوات ہیں ۔دعاء میں زیادہ کثرت ہونے سے قبولیت کے امکان زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔لیکن یہاں پر مقصود یہ نہیں تھا کہ کسی کو اس کے مستجاب الدعا ہونے کی وجہ سے بلایا گیاہے۔بلکہ اہل خانہ کو اہل خانہ کے مقابلہ کے طور پر بلایا گیا تھا۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر عثمان و علی ؛ طلحہ و زبیر؛ابن مسعود اور ابی بن کعب ؛ یا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم اوردیگر کبار صحابہ کو اس مقصد کے لیے طلب کرتے تو یہ سب لوگ تعمیل ارشاد کے لیے حاضر تھے،اور ان حضرات کی دعا بھی اجابت میں زیادہ بلیغ [اثررساں ] ہوتی؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم نہیں دیا تھا؛ اس لیے آپ نے ایسا نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ اس سے مباہلہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نجران کے نصاریٰ اپنے ان اقارب و اعزہ کو مجلس مباہلہ میں لا رہے تھے جن پر فطری طور پر ان کے دل میں شفقت تھی ؛جیسے کہ ان کے بیٹے ؛ عورتیں اور اپنے قریب ترین رشتہ دار مرد۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی لوگوں کو بھی اس میں آنے کی دعوت دیتے تو نصاریٰ بھی ایسے لوگوں کواپنے ساتھ شامل کر لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ایسے اجنبی اشخاص کی معیت میں مباہلہ میں شرکت کرنا ان پر کچھ بھی شاق نہ گزرتا جس طرح اقارب کے ہوتے ہوئے ان پر گراں گزر سکتا تھا۔ یہ بات انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ اقارب کی تکلیف کا احساس انسان کو خائف و ہراساں رکھتا ہے اجانب کا الم و رنج اسے اس قدر پریشان نہیں کر سکتا۔ جب کسی قوم سے مصالحت کرنا مقصود ہوتو ہر فریق دوسرے سے کہتا ہے کہ اپنے بیوی بچے ہمارے یہاں رہن رکھ دو۔ اس کے برخلاف اگر وہ کچھ اجنبی لوگوں کو ان کے پاس گروی رکھ دیں تو وہ اس پر رضا مند نہیں ہوں گے۔ ایسے ہی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی لوگوں کو بلا لاتے تو فریق مخالف اس پر ہر گز راضی نہ ہوتا۔ کسی شخص کے اہل بیت ہونے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی نسبت افضل ہیں ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اس آیت مبارکہ میں اصل میں رافضی کے مطلب کی کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ۔لیکن یہ رافضی اور اس کے امثال جن کے دلوں میں کجی پائی جاتی ہے ؛ان نصاری کی طرح ہیں جوکہ مجمل الفاظ کا
Flag Counter