Maktaba Wahhabi

655 - 764
کے اصحاب‘ امام اوزاعی او ران کے اصحاب‘ امام لیث او ران کے اصحاب‘ رحمہم اللہ اوران تمام علماء اسلام کا مذہب و مسلک رہا ہے جنہیں امت میں قبولیت حاصل ہے۔ جس کسی کا یہ خیال ہو کہ حدیبیہ کے موقع یا پھر دیگر مواقع پر مخالفین کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت؛ ایسا گناہ ہے جوکہ توبہ سے کبھی معاف نہیں ہوسکتا ‘ تو یقیناً ایسا انسان غلطی کا شکار ہے۔ جیسا کہ ان لوگوں کی بات بھی غلط ہے جو مخالفت حکم نبوی کے مرتکبین کی طرف سے عذر پیش کرتے ہوئے اور ان سے ملامت کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ: انہوں نے حلق اورقربانی میں تاخیر اس لیے کی کہ یہ لوگ انتظار کررہے تھے ؛ کہ شاید اس کی منسوخی کا حکم آجائے‘ یا پھر اس کے خلاف وحی نازل ہوجائے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ آپ کی اطاعت سے پیچھے رہ جانے والے اس وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کی تعظیم کا لحاظ تھا‘ اس لیے آپ کانام نہیں مٹایا ۔یا پھر مشرکین سے صلح کے مسئلہ پرتکرار کرنے والوں کا مقصد کفر پراسلام کا غلبہ اور اسلام کے ظہور و پذیرائی کا تھا۔ یہ اس طرح کی دیگر توجہیات تھیں ۔ تو جواب میں یہ کہا جائے گاکہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امر جازم سے مراد ایجاب تھا۔ جوکہ باتفاق اہل ایمان موجب اطاعت تھا۔ اس میں بعض ان لوگوں نے تنازعہ کیا جن کا یہ خیال تھا کہ یہ ایسا حکم جازم نہیں جس کا ماننا واجب ہو۔ اگراس کا واجب اطاعت ہونا ظاہر ہوتا تو پھر کوئی ایک بھی اس کی تعمیل میں شک تک بھی نہ کرسکتا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سر منڈوانے اور قربانیاں کرنے کا حکم صادر ہونا حکم جازم تھا ؛ جس کا تقاضا یہ تھا کہ فی الفور اس کی اطاعت کی جائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے تین بارایسا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جب ان میں سے کوئی ایک بھی اس حکم کی تعمیل کے لیے نہیں اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے؛ اور ان کے سامنے لوگوں کے اس رد عمل کا ذکر کیا ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں تھے؛ اور فرمایا : ’’ میں غصہ کیونکر نہ ہوں ‘ جب میں کسی بات کا حکم دیتا ہوں تو اس کی اتباع نہیں کی جاتی۔ ‘‘[1] یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمایاجب آپ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر لوگوں کو حلال ہونے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ عمرہ محصورہ سے تحلل کا حکم حج کے موقع پرعمرہ کے بعد تحلل کے حکم سے زیادہ مؤکد تھا۔ مزید برآں یہ کہ آپ کو اس موقع پر تحریر نامہ سے اپنا نام مٹانے کی ضرورت تھی تاکہ صلح اپنی منطقی انجام کو پہنچ سکے۔ اسی لیے آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔اور یہ حکم ایک امر جازم تھا؛ اس حکم کی مخالفت کرنے والا اگرچہ متأول تھا؛ اور اس کا گمان یہ تھا یہ حکم ماننا واجب نہیں ؛ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کمی آتی ہے۔ یا پھر اس میں عمرہ کا انتظار اور صلح کا عدم اتمام تھا۔ متاول کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے اجتہاد میں غلطی پر تھا۔ اس لیے
Flag Counter