کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پختہ حکم دیا تھا؛ اور بات نہ ماننے والوں کی شکایت بھی کی تھی اور یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں غصہ نہ ہوں جب کہ میں ایک بات کا حکم دے رہا ہوں او رمیری بات نہیں مانی جارہی ۔‘‘ تو ایسے موقع پر آپ کے حکم کی مخالفت کرنے کی گنجائش کسی ایک کے لیے بھی نہ تھی۔ لیکن یہ ایسی لغزش تھی جس سے صحابہ نے توبہ کرلی جیسا کہ دوسرے گناہوں سے توبہ کرلی تھی۔
پس کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کو معصوم ثابت کرے جو کہ حقیقت میں معصوم نہیں ہے۔ پھر اس سے حقیقی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح وارد ہو۔ جیسا کہ ا ن توبہ کرنے والوں کے متعلق کیا گیا۔اس گناہ کی وجہ سے انہیں ایک قسم کی سزا ملی؛ اور ان لوگوں سے اس چیز کی نفی کرنے لگ گئے جس کی وجہ سے ان پر ملامت واجب ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کو ملامت کیاہے[یعنی اس کے بعد پھر ان لوگوں نے توبہ کرلی ؛ اور ان سے ملامت ختم ہوگئی ] مگریہ بشریت کی تعظیم میں اتنا آگے نکل گئے کہ اللہ رب العالمین کی شان میں قدح کرنے لگے ۔ [یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا اعتبار نہ رہا‘ اور گنہگار کو غیر گنہگار شمار کرنے لگے ]۔
اب جس انسان کو یہ علم ہو کہ کمال کا اعتبار آخر کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اور یہ کہ توبہ انسان کو اس کے سابقہ مقام سے بہت آگے لے جاتی ہے۔ تو پھراسے یہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کے ساتھ کیا ‘ وہ ان لوگوں پر اس کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک تھا۔
وہ مقامات جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف کوئی ایک ہی ہوتا تھاتو [اکثر وبیشتر] آپ [یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ]ہی ہوتے تھے۔ مثال کے طورپر ہجرت کا سفر۔ اور بدر کے دن آپ کے چھپر پر پہرہ داری ۔ ان مواقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا۔ اور قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے وقت آپ کے ساتھ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوا کرتے تھے۔
یہ خصوصیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی ۔ اس پر ان تمام لوگوں کا اتفاق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کوجانتے ہیں ۔ لیکن رہا وہ انسان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے جاہل ہو ‘ یا پھر جھوٹا ہو تو وہ اس شیعہ مصنف جیسی باتیں ہی کہے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
یہ صحبت صرف غار کے واقعہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے؛ بلکہ آپ مطلق صحبت رکھتے تھے۔ جو صحبت اپنے کمال میں اس درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ جس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ تو آپ اس کمال صحبت میں وحید ومختص ہیں ۔ [ اس قسم کے واقعات کی بنا پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کے لقب سے نوازا گیا]۔
|